ترکِ دنیا کیا ہے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9281
اللہ نے انسان کی تخلیق کچھ اس طرح کی ہے وہ کسی جگہ ٹھہرتا نہیں ہے۔ بے رنگی سے نکل کر وہ وراءِ بے رنگ کا مشاہدہ کر لیتا ہے اور یہی اللہ کی ذات کا عرفان ہے۔ قلندر شعور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ انسان اپنے اِرادے اور اِختیار سے اپنے اوپر ایسی کیفیات اور وارِدات محیط کر سکتا ہے جو اسے دنیاوی خیالات سے آزاد کر دیں۔ دنیاوی خیالات سے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑ دے، کپڑے نہ پہنے، گھر میں نہ رہے، شادی نہ کرے، دنیاوی خیالات سے آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ دنیاوی معاملات میں ذہن کا اِنہماک نہ ہو۔ دنیاوی معاملات کو روٹین کے طور پر پورا کرے۔ مثلاً ایک آدمی کی ضرورت ہے کہ وہ پانی پئے۔ اُسے جب پیاس لگتی ہے وہ پانی پی لیتا ہے لیکن وہ تمام دن اپنے اوپر پیاس کو مسلط نہیں رکھتا۔ پانی کا تقاضا پیدا ہُوا، پانی پیا اور بھول گیا یہی صورتِ حال سونے اور جاگنے کی ہے۔
جب کوئی بندہ کسی ایک، دو، دس، بیس، پچاس خیالات میں اس طرح گِھر جاتا ہے کہ اس کا ذہن معمول (Routine) سے ہٹ جائے تووہ بے رنگی سے دور ہو کر رنگوں کی دنیا میں مصروف ہو جاتا ہے اور جب کوئی بندہ دنیاوی ضروریات کے تمام اعمال و افعال کو روٹین کے طور پر انجام دیتا ہے تو وہ رنگوں کی دنیا میں رہتے ہُوئے بھی بے رنگ دنیا کی طرف سفر کرتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک شاگرد نے حضرت جنید بغدادی ؒ سے سوال کیا کہ ترکِ دنیا کیا ہے ؟
حضرت جنید ؒ نے جواب دیا۔ ’’دنیا میں رہتے ہُوئے آدمی کو دنیا نظرنہ آنا۔ ‘‘
شاگردنے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے ؟‘‘
حضر ت جنید ؒ نے مسکرا کر جواب دیا۔ میں جب تمہاری عمر کا تھا، میں نے اپنے پیر و مرشد سے یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا……
آؤ بغداد کے سب سے مشہور بازار کی سیر کریں۔ چنانچہ میں اور شیخ بغداد کے مصروف ترین بازار کی طرف نکل گئے۔ جیسے ہی ہم بازار کے صدر دروازے میں داخل ہُوئے، میں نے دیکھا کہ میں اور میرے شیخ ایک ویرانے میں کھڑے ہیں۔ حدِّ نظر تک ریت کے ٹیلوں اور بگولوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میں نے حیرت سے کہا ’’شیخ!یہاں بازار تو نظر نہیں آرہا۔ ‘‘
شیخ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’جنید !یہی ترک دنیا ہے کہ آدمی کو دنیا نظر نہ آئے‘‘۔ اون کے لبادے اوڑھ لینا، جَو کی روٹی کھا لینا، عالی شان مکانوں سے منہ موڑ کر جنگلوں میں نکل جانا ترکِ دنیا نہیں ہے۔ ترکِ دنیا یہ ہے کہ لذیذ ترین اشیاء بھی کھاؤ تو جَو کی روٹی کا ذائقہ ملے۔ اَطلس و دیبا اور حریر بھی پہنو تو ٹاٹ کا لباس محسوس ہو۔ گنجان بازاروں اور خوبصورت محلات کے درمیان سے بھی گزرو تو بیاباں نظر آئے۔ لیکن جنید! یہ سب باتیں پڑھنے سے اور دوسروں کو سمجھا نے سے اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئیں گی جب تک تم ترکِ دنیا کے تجربے سے نہ گزرو۔ آؤ اب گھر چلتے ہیں۔ اب جیسے ہی ہم اس ہولناک ویرانے سے گھر کیلئے روانہ ہوئے، ہم بغداد کے اس با رونق بازار کے صدر دروازے پر کھڑے تھے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 90 تا 92
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔