تخلیقی فارمولے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9381
ہم جب اللہ کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ باوُجود اس کے مَیٹر (Matter) ایک ہے، تخلیقی قاعدے، ضابطے اور طریقے ایک ہیں، مخلوق کے اندر طبعی تقاضے یکساں ہیں۔ عقل و شعور سب میں ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی میں شعور زیادہ ہے، کسی میں کم ہے، کسی میں بہت کم ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر تخلیق کی اِنفرادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ اِنفرادیت کے دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ اجتماعی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا رُخ الگ اور منفرد شخصیت کے روپ میں مَوجود ہے۔ اجتماعی رُخ کو ہم ’’نَوع‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اِنفرادی رُخ کو ہم ’’فرد‘‘ کہتے ہیں۔ ہر نَوع کا ہر فرد الگ الگ ایک حیثیت، شکل و صورت، رنگ و روپ اور نقش و نگار رکھتا ہے۔ طوطے کی نَوع کے تمام افراد کی شکل ایک ہے۔ کبوتر کی نَوع کے افراد کی شکل و صورت ایک ہے۔ اسی طرح اللہ کی جتنی بھی مختلف مخلوقات ہیں وہ نَوعی اعتبار سے جو شکل و صورت رکھتی ہیں وہی شکل و صورت اِنفرادی ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ اس میں زیادہ تفکر اور تدبّر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انسانی مشاہدات ہر وقت اس صورتِ حال سے آشنا ہیں۔
نَوعی توّتع پر غور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ نَوع کا مختلف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نَوع کے خدّوخال میں معیّن مقداریں کام کر رہی ہیں۔ بکری کی نَوع میں اللہ نے جو معیّن مقداریں رکھ دی ہیں وہ جب متحرّک ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں بکری کی تخلیق ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بکری کے پیٹ سے کبوتر پیدا ہوجائے۔ یہ معیّن مقداریں نہ صرف زمین کے اوپر مَوجود مخلوق میں نظر آتی ہیں بلکہ کائنات کی ہرتخلیق کے ہر جزو میں یہ مقداریں کام کررہی ہیں۔ ان مقداروں کا اہم کام یہ ہے کہ جب آپس میں ردّ و بدل ہوتی ہیں یا ان کا آپس میں ایک دوسرے کے اندر انجذاب ہوتا ہے تو مختلف رنگ اِختیار کر لیتی ہیں اور یہ رنگ ہی دراصل کسی نَوع کے خدّوخال بن جاتے ہیں۔
قلندر بابا اولیاء ؒ نے تخلیقی فارمولوں کی وضاحت اس طرح کی ہے۔
’’ کائنات میں مَوجود تمام مادّی اجسام لاشمار رنگوں میں سے متعدّد رنگوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ رنگ نَسمہ کے مخصوص حرکات سے وُجود میں آتے ہیں۔ نَسمہ (Aura) کی معیّن طوالتِ حرکت سے ایک رنگ بنتا ہے۔ دوسری طوالتِ حرکت سے دوسرا رنگ۔ اس طرح نَسمہ کی لا شمار طوالتوں سے لاشمار رنگ وُجود میں آتے رہتے ہیں۔ ان رنگوں کا عددی مجموعہ ہر نَوع کیلئے الگ الگ معیّن ہے۔ اگر گلاب کیلئے رنگوں کا عددی مجموعہ ’’الف‘‘ معیّن ہے تو الف عددی مجموعہ سے ہمیشہ گلاب ہی وُجود میں آئے گا، کوئی اور شےوُجود میں نہیں آئے گی۔ اگر آدمی کی تخلیق ’’جیم‘‘ تعداد سے ہوتی ہے تو اس مقدار سے کوئی دوسرا حیوان نہیں بن سکتا، صرف نَوعِ انسانی ہی کے افراد وُجود میں آ سکتے ہیں۔
عالم رنگ میں جتنی اشیا پائی جاتی ہیں وہ سب رنگین رَوشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ہی رنگوں کے ہجوم سے وہ شے وُجود میں آتی ہے جس کو عُرفِ عام میں ’’مادّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیساکہ سمجھا جاتا ہے کہ مادّہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے، اگر اس کو شکست و ریخت کرکے انتہائی مقداروں تک منتشر کر دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعائیں باقی رہ جائیں گی۔ اگر بہت سے رنگ لے کر پانی میں تحلیل کر دیئے جائیں تو ایک خاکی مرکّب بن جائےگا، جس کو ہم مٹی کہتے ہیں۔ گھاس، پودوں اور درختوں کی جڑیں پانی کی مدد سے مٹی کے ذرّات کی شکست و ریخت کرکے ان ہی رنگوں میں سےاپنی نَوع کے رنگ حاصِل کر لیتی ہیں۔ وہ تمام رنگ پتی اور پھول میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تمام مخلوقات اور مَوجودات کی مظہری زندگی اس ہی کیمیائی عمَل پر قائم ہے ۔ ‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 129 تا 131
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔