یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
بھلائی کا سرچشمہ
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2970
خدا کے دین کو چھوڑ کر جو طریق بھی اختیار کیا جائے گا، خدا کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اللہ رب العزت کے لئے وہی دین مقبول بارگاہ ہے جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بالوضاحت کیا گیا ہے۔ اور جس کی عملی تفسیر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں کو صاف صاف بتا دیجئے کہ میں نے جو راہ بھی اپنائی ہے، سوچ سمجھ کر پوری بصیرت کے ساتھ اپنائی ہے۔
’’اے رسول! آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور میرے پیچھے چلنے والے پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور خدا ہر عیب سے پاک ہے اور میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں جو خدا کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔‘‘
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا دوسرے دین کو اختیار کرنا چاہے گا اس کا وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہو گا۔‘‘
’’اور خدا کے نزدیک دین تو بس اسلام ہی ہے۔‘‘ (قرآن)
امت مسلمہ کو خدا نے دین کی جو دولت عطا کی ہے یہی دونوں جہان کی عظمت و سربلندی کا سرمایہ ہے۔ بھلا اس کے مقابلے میں دنیا کی دولت اور شان و شوکت کی کیا قدر و قیمت ہے جو چند روزہ اور فانی ہے۔
قرآن اہل کتاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اے اہل کتاب! تم کچھ نہیں ہو جب تک تم تورات اور انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب نے نازل فرمائی ہیں۔‘‘
قرآن)
بلا شبہ صحیح فہم کے ساتھ دین کی حکمت ہی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص اس چیز سے محروم ہے وہ دونوں جہان کی نعمتوں اور سعادتوں سے محروم ہے۔ اس کی زندگی میں کبھی طمانیت اور سکون داخل نہیں ہوتا۔
اللہ کے مشن(دین) کو پھیلانا ہر امتی پر فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے پہلے خود اپنا عرفان حاصل کریں۔ خود آگاہی اور اپنی ذات کا عرفان ایسی روحانی کامیابی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی دعوت کا سچا نمونہ بن جاتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے عمل و کردار سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاقی، دینی اور روحانی مشن کو عا م کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے تو پہلے خود اس کی مثال قائم کرتا ہے۔ خدا کو یہ بات انتہائی ناگوار گزرتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے خود بے عمل ہوں۔ نبئ برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے بے عمل دعوت دینے والوں کو انتہائی ہولناک عذاب سے ڈرایا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 52 تا 53
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔