بچپن کے بارہ سال
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=308
محمد الرّسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دنیا میں جب اۤنکھ کھولی تو انکے والد حضرت عبد اللہ اس جہاں سے رخصت ہوچکے تھے۔ حضرت عبد اللہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے واپسی میں یثرب کے مقام پر بیمار ہوئے اور عالمِ جوانی میں وہیں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے دو ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔
۱۲ربیع الاوّل بروز دو شنبہ بمطابق۲۰ اگست۵۷۰ عیسوی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ (۹ ربیع الاوّل بروز دو شنبہ ۲۲ اپریل۵۷۱ عیسوی بھی حضورؐ کی تاریخِ پیدائش روایت کی گئی ہے)۔ اۤپ کی والدہ حضرت اۤمنہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خبر اپنے سسر عبد المطّلب کو بھیجی جو طوافِ کعبہ میں مصروف تھے۔ عبد المطّلب گھر اۤئے اور حضورؐ کو خانہ کعبہ میں لے اۤئے اور اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کے فتنہ و شر سے محفوظ رکھنے کی دعا کی۔ عبد المطّلب نے اۤپ کا نام ”محمدؐ” رکھا۔
جب اۤپؐ دنیا میں اۤئے تو سر زمینِ عرب سرسبز و شاداب ہوگئی۔ درخت پھلوں سے جھک گئے۔ مکہ میں خوشحالی اۤگئی۔ اسی سال اصحاب الفیل کا واقعہ پیش اۤیاتھا۔ جب ابراھہ اور اس کی ساٹھ ہزار فوج اور ۱۳ ہاتھی سنگریزوں کی بارش سے کھائے ہوئے بھس میں تبدیل ہوگئے۔
ولادت کے وقت زلزلہ اۤیا اور کسریٰ شہنشاہِ فارس کے محل کے چودہ کُنگرے گر پڑے۔ اۤتش کدۂ فارس میں صدیوں سے روشن اۤگ بجھ گئی۔
حضورؐ نے تین دن تک اپنی ماں کا دودھ پیا پھر ثوبیہ کا دودھ پیا۔ دو سال پہلے ثوبیہ نے اۤنحضرت ؐ کے چچا حمزہؓ کو بھی دودھ پلایاتھا۔ یہ وہ خوش قسمت خاتون تھیں جنہوں نے حضورؐ کی پیدائش کی خبر ابولہب کو سنائی تو ابولہب نے انہیں اۤزاد کردیا۔
عربوں میں رواج تھا کے پرورش کے لئے کم سن بچوں کو دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ دیہاتوں میں رہنے والی عرب عورتیں سال کے مختلف حصّوں میں مکہ اۤتی تھیں اور شیر خوار بچوں کو پرورش کرنے کے لئے صحرا میں لے جاتی تھیں۔ قبیلہ بنو سعد بن بکر کی عورتوں نے دوسرے بچوں کو گود لیا اور حضرت حلیمہ نے محمدؐ کو سینے سے لگایا۔
ابتدائی عمر کے چار سال اۤپؐ نے بنو سعد میں دائی حلیمہ کی رضاعت کے زیرِ سایہ گزارے۔ رضاعت سے فارغ ہوکر حضورؐ اپنی والدہ کے پاس اۤگئے۔
جب اۤپؐ چھ سال کے ہوئے تو حضرت اۤمنہ اپنے خاوند کے مزار کی زیارت کے لئے یثرب تشریف لی گئیں۔ اس سفر میں امِ ایمن بھی ہمراہ تھیں۔ حضرت اۤمنہ ایک ماہ تک یثرب میں مقیم رہیں۔ وہاں روز بروز ان کی صحت خراب ہوگئی اور مکہ واپس اۤتے وقت سفر میں ابواء کے مقام پر ان کا انتقال ہوگیا۔ امِ ایمن محمد الرسول اللہﷺ کو مکہ مکرمہ لائیں اور ان کے دادا عبد المطّلب کے سپرد کردیا۔ دو سال بھی نہ گزرے تھے کے دادا عبد المطّلب کا انتقال ہوگیا۔ دادا مرتے وقت اپنے اۤٹھ سالہ یتیم پوتے کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کرگئے اور متوسط الحال ابو طالب کی سرپرستی میں محمدؐ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔
اۤٹھ سال کی عمر میں جبکہ بچے دنیا کی اونچ نیچ سے بے خبر کھیل کود میں مگن ہوتے ہیں محمدؐ دن بھر بکریوں کی رکھوالی کرتے، جنگل میں انہیں چرانے لی جاتے، دوپہر کے کھانے میں جھڑ بیری کے بیر کھاکر پیٹ بھرتے، اونٹوں کی مہار پکڑتے اور گھر کے چھوٹے بڑے کام کرتے تھے۔ محمدؐ نے اپنے چچا کا ہاتھ بٹانے کے لئے اور چچا کے کندھوں سے اپنا بوجھ ہٹانے کے لئے مذکورہ بالا مصروفیتیں تلاش کرلیں۔ اگرچہ ابو طالب نے بھتیجے اور اپنے بچوں کے درمیان فرق نہ کیا اور دونوں میاں بیوی نے حقیقی بیٹے کی طرح ان کی پرورش کی لیکن ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کا بدل تو نہیں ہوتا۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اۤٹھ سال کی عمر میں ہر صبح شہر سے باہر نکل جاتے اور شام گئے تک اکیلے صحرا میں رہتے تھے۔ اکثر اوقات لا محدود اۤسمان اور لامتناہی اُفق پر نظریں جمائے رکھتے اور سورج ڈھلنے سے پہلے مویشیوں کو لے کر واپس اۤبادی میں لوٹ اۤتے۔ وہ بچہ جس کا باپ نہ ہو، جس کی ماں نہ ہو اور جو کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت مشقت کرے وہ زندگی میں خود کفیل(Self-Made) ہوتا ہے۔
پیغمبرِ اسلامؐ کے چچا ابو طالب ایک تاجر تھے۔ وہ محمدؐ کو بارہ سال کی عمر میں شام لے گئے۔ شام کے شہر ”بصرہ” کے نزدیک ان کا کارواں ٹھہرا۔ جس جگہ کارواں نے پڑاؤ کیا وہاں ایک صومعہ میں بحیراء نامی راہب رہتا تھا۔ سریانی زبان میں بحیراء کے معانی بزرگ اور دانشور کے ہیں۔ بحیراء نے اس دن تک اپنے صومعہ سے باہر قدم نہیں نکالا تھا اور نہ کسی کارواں کے مسافر سے گفتگو کی تھی۔ عربوں کا یہ تجارتی قافلہ جب صومعہ کے قریب فروکش ہوا تو بحیراء نے دیکھا کہ جس درخت کے نیچے قافلہ والے ٹھہرے ہیں اس کی ٹہنیاں خود بخود جھک گئی ہیں۔ اس نے دیکھا ایک بارہ سالہ لڑکا قافلہ میں شامل ہے۔ جس پر بادل کا ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ہے۔ بحیراء نے اۤپؐ کو بحیثیت اۤخری نبی پہچان کر اۤپؐ کے سرپرست ابو طالب کو نصیحت کی کہ اپنے بھتیجے کی پوری پوری نگرانی کریں۔ ابو طالب نے کہا کہ اۤپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ بچہ وہی ہے جس کا تذکرہ الہامی کتابوں میں ہے۔ بحیراء نے جواب دیا تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوٗے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے جھک نہ گیا ہو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 18 تا 22
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔