بارش برسانے کا فارمولا
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21193
اﷲ تعالیٰ فر ماتے ہیں
’’اور یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اُس نے تمھارے لئے پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے اُن لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں ‘‘
(سورۃالنحل۔آیت نمبر۱۳ )
تصوف کا علم ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ دنیا میں ہر چیزرنگین ہے ․․․اور ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہے، ہر چیز دوسری چیز کے لئے ایثار کررہی ہے، پھولوں میں رنگ وبو بھنورے اور مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ انجیر کے اندر ایک زوجین چھوٹاسا غنچہ ہوتا ہے، ایک خاص قسم کی بھڑ غنچوں میں انڈے دے جاتی ہے، جب بچے نکلتے ہیں تو نرانجیرمادہ انجیر میں چلے جاتے ہیں۔
بعض بیلیں براہ راست زمین سے غذا حاصل نہیں کرتیں بلکہ دوسرے درختوں کے رس پر پلتی ہیں اور یہ درخت رفتہ رفتہ خشک ہوجاتے ہیں، درختوں کی جڑیں کیونکہ پانی جذب کرلیتی ہیں اس لئے زمین پر دلدل نہیں بنتی، فضاء جب درختوں کے سانس سے بھر جاتی ہے تو بادل وزنی ہو کر برسنے لگتے ہیں۔
ریگستان میں اگر بےِشماربانس کھڑے کردیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک یہ بانس لگے رہیں گے بارش برستی رہے گی تا آنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہوجائے۔
حیوانات کی زندگی کا دارمدار آکسیجن پر ہے اورنباتات کی زندگی کا انحصار کاربن پرہے ، اگر آکسیجن کم ہوجائے تو حیوانات ہلاک ہوجائیں گے اور کاربن کا ذخیرہ نہ رہے تو نباتات فنا ہوجائیں گی․․․․․․یہ اﷲ کا بنایا ہوانظام ہے ․․․․․اورایک ایسا علم ہے جسے انسان کو ودیعت کردیاگیا ہے پوری کائنات اﷲ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اس کنبہ کا ہر فرد دوسرے فردسے ہم رشتہ ہے ،ہر شے ۔ د وسری شے کے کام آرہی ہے۔ہر شے خوراک بن کر دوسری شے کے لئے ایثارکر رہی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 78 تا 78
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔