ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=269
سوال: ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟
جواب: نماز کی فرضیت ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور پاکﷺ پر نماز کب فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت سے پہلے ہی ایسا ذہن عطا فرمایا تھا جس کا رخ نورانی دنیا کی طرف تھا اور نورانی دنیا کی طرف متوجہ رہنے کے لئے حضورﷺ نے وہ تمام اعمال و اشغال ترک فرما دیئے تھے جن سے ذہن کثیف دنیا کی طرف زیادہ مائل رہتا تھا۔ حضورﷺ کی مقدس زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی۔ آپﷺ سے کبھی ایسا کوئی عمل سرزد نہیں ہوا جو بے حیائی کے زمرے میں آتا ہو۔ آپﷺ نے ہمیشہ بے کسوں کی دستگیری کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوشہ نشیں ہو کر اور ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔ اور آپﷺ نے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی زیادہ مرکوز فرمائی کہ قربت سے سرفراز ہوئے اور معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“ہم نے بندے سے جو دل چاہا باتیں کیں اور جو کچھ دل نے دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔”
(القرآن)
نماز میں حضور قلب کے لئے ضروری ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ جس حد تک حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہو گا اسی مناسبت سے نماز میں حضوری نصیب ہو جائے گی۔ قلب میں جلا پیدا کرنے کے لئے ان چیزوں سے دوری پیدا کرنی ہو گی جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ ہمیں اس دماغ کو رد کرنا ہو گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا دماغ ہے۔ اس دماغ سے آشنائی حاصل کرنا ہو گی جو جنت کا دماغ ہے اور جس میں تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ ہی دماغ روح کا دماغ ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کر لیتا اس وقت تک نماز میں حضور قلب نصیب نہیں ہو گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 32
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔