انسان، وقت اور کھلونا
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9233
جب ہم عقل و شعور کا موازنہ کرتے ہیں تو کوئی آدمی ہمیں زیادہ با صلاحیّت نظر آتا ہے کوئی آدمی کم صلاحیّت اور کوئی آدمی بالکل بےعقل ہوتا ہے۔ سائنس خلاء (Space) میں چہل قدمی کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ بےعقل آدمی کو عقل مند بنا دیا گیا ہو۔
اللہ ہی اپنی مرضی سے عقل و شعور بخشا ہے، آدمی کے اندر فکر و گہرائی عطا کرتا ہے۔ اَلمیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر اللہ فکر اور گہرائی عطا کرتا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں، یہ ہمارا ذاتی وصف ہے اور جب یہ فکر اور گہرائی ان سے چھین لی جاتی ہے تو اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
زندگی کے تمام اجزاءِ ترکیبی ایک طاقت کے پابند ہیں وہ طاقت جس طرح چاہے رو ک دیتی ہے اور جس طرح چاہے انہیں چلاتی ہے۔ قلندر شعور کے بانی قلندربابااولیاء ؒ ارشادفرماتے ہیں کہ لوگ نادان ہیں کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے اوپر ہے۔ انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں ردّ و بدل کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے انسان ایک کھلونا ہے۔ حالات جس قسم کی چابی اس کے اندر بھر دیتے ہیں اسی طرح یہ کودنا، ناچنا شروع کر دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات کے اوپر انسان کو دَسترس حاصِل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا، کوئی آدمی بیمار نہ پڑتا، کوئی آدمی بوڑھا نہ ہوتا اور کوئی آدمی موت کے منہ میں نہ جاتا۔
تا ریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا، موت کے پنجے نے ان کی گردن مروڑ کر رکھ دی۔ شدّاد، نمرود اور فرعون کی مثالیں ایسی نہیں ہیں جن کو محض ہم کہانی کہہ کر گزر جائیں۔ تاریخ ہر زمانے میں خود کو دہراتی ہے البتہ رنگ روپ، نام، شکل و صورت بدل جاتے ہیں۔ اس زمانے میں شہنشاہِ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس نے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ منائی، موت کے پنجے نے اس کو اس قدر بےبس اور ذلیل کر دیا کہ اس کیلئے اس کی سلطنت کی زمین بھی تنگ ہو گئی اور وہ دیارِ غیر میں مرگیا۔ کوئی اس کا پُرسانِ حال نہیں ہُوا۔ اگر حالات انسان کی گرفت میں ہیں تو اتنا بڑآبادشاہ غریبُ الدّیار کیسے بن گیا۔ اس قسم کے بےشمار واقعات ہر روز پیش آتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اِن باتوں پر غور نہیں کرتے اور اِن سب باتوں کو اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں، جبکہ کائنات میں اتفاق یاحادثہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ کا ایک نظام ہے جو مَربوط ہے۔ ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں نہ کہیں اتفاق ہے نہ کہیں حادثہ ہے، نہ کوئی مجبوری ہے۔
جب کسی بندے کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس نظام میں کوئی چھوٹی سی چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شئے اللہ کے بنا ئے ہُوئے نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک یقین کا پَیٹرن (Pattern) بن جاتا ہے۔ اس پَیٹرن (Pattern) کو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں تو ان واقعات کی کَڑیاں اس قدر مضبوط اور مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کائنات پر حاکمِ اعلیٰ اللہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 76
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔