اندھی آنکھ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26325
انسان جب مرجاتا ہے اس کے وجودمیں آنکھ اور آنکھ کی پتلی موجود رہتی ہے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ صورت موت کے علاوہ عام زندگی میں بھی پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی اندھا ہو گیا اس کے سامنے ساری چیزیں رکھی ہو ئی ہیں لیکن اسے کچھ نظر نہیں آرہا۔ اس لئے نظر نہیں آرہا کہ جو چیز دیکھنے کا میڈیم بنی ہو ئی تھی وہ موجود نہیں رہی یعنی آنکھ نے کسی چیز کا عکس ذہن پر منتقل نہیں کیا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ آنکھیں ٹھیک ہوتی ہیں لیکن دماغ کے سیل (CELL) جو انسان کے اندر حسیات (SENSES) پیدا کرتے ہیں یا وہ سیلز (CELLS)جو نگاہ کا ذریعہ بن کر تصویری خدوخال کو ظاہر کرتے ہیں معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے۔
آدمی کو چیونٹی کا ٹتی ہے۔ اس نے چیونٹی کو دیکھا نہیں ہے۔ لیکن وہ چیونٹی کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتا ہے مفہوم یہ ہے آدمی کے اندر وہ حس جو کسی بھی طریقے سے علم بنتی ہے اس نے دماغ کو بتا دیا کہ کسی چیز نے کاٹا ہے۔
انسان کو سب سے پہلے جس چیز کا علم حاصل ہو تا ہے خواہ لمس کے ذریعے ہو خواہ شامہ کے ذریعے ہو خواہ سماعت کے ذریعے ہو خواہ بصارت کے ذریعے ہو۔ احساس کا پہلا درجہ ہے۔ کسی چیز کو سننا سننے کے بعد مفہوم اخذ کرنا یہ احساس کا دوسرا درجہ ہے۔ پہلی مرتبہ علم حاصل ہو نا احساس کا پہلا درجہ ہے۔ دیکھنا احساس کا دوسرا درجہ ہے۔ سننا احساس کا تیسرا درجہ ہے۔ کسی چیز کوسونگھ کر اس کی خوشبو یا بد بو محسوس کرنا احساس کا چوتھا درجہ ہے۔ اور چھونا احساس کا پانچواں درجہ ہے۔
بھوک پیاس کیا ہے ایک آدمی کو پیاس لگی۔ پیاس ایک تقاضہ ہے۔ پیاس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے حواس ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ کہ پانی گرم ہے۔ پانی ٹھنڈا ہے۔ پانی کڑوا ہے یا پانی میٹھا ہے۔
پیاس کے تقاضے میں جو مقداریں کام کر رہی ہیں وہ بھوک کے تقاضے میں نہیں ہیں اس لئے صرف پانی پی کر بھوک کا تقاضا رفع نہیں ہوتا۔ بھوک کے اندر جو مقداریں کام کررہی ہیں اس کی اپنی الگ ایک حیثیت ہے یہی وجہ ہے کہ صرف کچھ کھا کر پیاس کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 286 تا 287
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔