اندر کی آنکھ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22736
*ایک سادھو خواجہ غریب نواز ؒ کی خد مت میں حاضر ہوا سادھو گیا ن دھیا ن سے اس مقام پر پہنچ گیا تھا جہا ں نظر آئینہ ہو جا تی ہے مقا بل آدمی ایسا نظر آتا ہے۔ جیسے ٹیلی ویژن کی اسکر ین پر تصو یر نظر آتی ہے۔
سادھو نے مراقبہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ خوا جہ صا حب کا سا را جسم بقعۂ نور ہے لیکن دل میں ایک سیا ہ دھبہ ہے سا دھو نے جب خو اجہ صا حب سے مراقبہ کی کیفیت بیا ن کی تو خواجہ غریب نواز ؒ نے فر ما یا تو سچ کہتاہے۔
سا دھو یہ سن کر حیر ت کے دریا میں ڈوب گیا اور کہا چا ند کی طر ح روشن آتما پر یہ دھبہ اچھا نہیں لگتا کیا میری شکتی سے یہ دھبہ دور ہو سکتا ہے؟
خواجہ غریب نواز نے فرمایا ’’ہاں‘‘ تو چا ہے تو یہ سیا ہی دھل سکتی ہے۔
سا دھو نے بھیگی آنکھو ں اور کپکپاتے ہو نٹو ں سے عرض کیا۔
’’ میر ی زند گی آپ کی نذر ہے‘‘
خواجہ صا حب نے فر ما یا:
اگر تو اﷲ کے رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایما ن لے آئے تو یہ دھبہ ختم ہو جا ئیگا سا دھو کی سمجھ میں یہ با ت نہیں آئی لیکن چو نکہ وہ اپنے اند ر سے مٹی کی کثا فت دھو چکا تھا اس لئے وہ اﷲ کے دوست محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسا لت پر ایما ن لے آیا۔خواجہ صاحب نے فر ما یا ’’آتما کی آنکھ سے اندر دیکھ‘‘۔ سا دھو نے دیکھا تو روشن دل سیا ہ دھبے سے پا ک تھا۔
سا دھو نے خواجہ غریب نواز ؒ کے آگے ہا تھ جو ڑ کر بنتی کی۔ مہاراج ’’اس انہونی بات پر سے پردہ اٹھایئے‘‘۔خواجہ اجمیریؒ نے فر مایا ’’وہ روشن آدمی جس کے دل پر تو نے سیا ہ دھبہ دیکھا تھا تو خود تھالیکن اتنی شکتی کے بعدبھی تجھے روحا نی علم حا صل نہیں ہوا‘‘ وہ علم یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہے اور ہر
* روحانی ڈائجسٹ
دوسرے آدمی کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے تو نے جب اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا۔ تیرا ایما ن حضرت محمدرسول اﷲ کی رسالت پر نہیں تھا اس لیے تیرے دل پر سیا ہ دھبہ تھا اور جب تو نے کلمہ پڑھ لیا تو تجھے میرے آئینے میں اپنا عکس روشن نظر آیا۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشائخِ چشت کی خانقاہیں اسلامی جدوجہد کا مرکز بنی رہیں۔ یہ خانقاہیں تقویٰ ، دین ، خدمتِ خلق ، توکل اور روحانی علوم حاصل کرنے کی یونیورسٹیاں تھیں۔ان خانقاہوں میں طالبِعلم کو ایسی فضاء اور ایسا ماحول میسر آجاتا تھا کہ وہاں تزکیہ ٔ باطن اور تہذیبِ نفس کیلئے خودبخود انسانی ذہن متوجہ ہوجاتا تھا۔
حصولِ علم کا مرکز حضرت بابا فرید گنجِ شکرؒ تھے ۔ لیکن اس تعلیم کو حسن وخوبی اور منظم جدوجہدکے تحت حضر ت بابا نظام الدین اولیاءؒ نے معراجِ کما ل تک پہنچادیا۔ پچاس سال تک یہ خانقاہیں ارشادو تلقین کا مرکز بنی رہیں۔مُلک مُلک سے لوگ پروانہ وار آتے تھے۔اور ان کی خدمت میں حاضر باش رہ کرعشقِ الہٰی اور دینِ اسلام کو لوگوں تک پہنچانے کا جذبہ لیکر رخصت ہوتے تھے۔ان خانقاہوں کا دروازہ امیر و غریب، شہری دیہاتی،بوڑھے جوان اور بچوں کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔
حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے بیعت کو عام کر دیا تھا۔جب متلاشیانِ حق ان کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے تو ان کو خرقہ پہناتے اور ان کی تعظیم کرتے تھے۔
حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے اپنے جلیل القدر خلیفہ برہان الدین کو چار سو ساتھیوں کے ساتھ تعلیم کے لئے دکن روانہ کیا۔خلیفہ برہان الدین نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دکن کو اسلامی ، دینی اور روحانی علوم سے فیضیاب کیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 187 تا 188
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔