انبیاء کی طرزِ فکر
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9064
ترقی اور تنزل جب زیربحث آتا ہے تو ذہن اس طرف بھی متوجّہ ہوتا ہے کہ آخر ترقی یا تنزل میں کون سے عوامِل کار فرما ہیں۔ ابھی ہم بتا چکے ہیں کہ اِنفرادی یا اِجتماعی جدّوجہد کے نتیجے میں ترقی نصیب ہوتی ہے۔ اور اِنفرادی یا اِجتماعی تساہُل اور عَیش پسندی کے نتیجے میں قوموں کو عروج کے بجائے زوال نصیب ہوتا ہے۔ ترقی کے یہی دو رُخ ہیں۔ ترقی یا عزّت و تَوقیرکی ایک حالت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کو دنیاوی عزّت اور دنیاوی دَبدبہ اور دنیاوی شان و شوکت نصیب ہو۔ ترقی کا دوسرا رُخ جو فی الواقع حقیقی رُخ ہے، اِس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ ظاہری حالت میں رہتے ہوے غَیب کی دنیا میں بھی جس فرد یا قوم کی رسائی ہوتی ہے، دراصل وہی اصلی ترقی، عزّت اور شان و شوکت ہے۔ ان دو رُخوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات پوری طرح سامنے آ جاتی ہے کہ مَوجودہ دَور میں سائنسی ترقی کادارومدارصرف ظاہری ترقی پر ہے۔ بےشک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا ہے اور جدّوجہد کے بعد نئی نئی اِختراعات کی ہیں وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان سے محروم ہیں۔ قلبی اطمینان اور روحانی سکون سے یہ قومیں اس لئے محروم ہیں کہ یہ حقیقت سے بےخبر ہیں یا حقیقی دنیا سے ابھی اُن کا کوئی واسطہ یا تعلّق پیدا نہیں ہوا۔ حقیقت میں ذہنی اِنتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے۔ حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پُرسکون رہتے ہیں۔ مَوجودہ دَور بےشک ترقی کا دَور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں، بےسکونیاں اور ذہنی اِنتشار سے نَوعِ انسانی دوچار ہوئی ہے اس کی نظیر پہلے کے دَور میں نہیں ملتی۔ وجہ صرف یہی ہے کہ اس ترقی کے پیچھے ذاتی مُنفِعَت ہے…. وہ اِنفرادی ہویا قومی ہو…! اگر یہ ترقی فی الواقع نَوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لئےہوتی تو قوموں کو اطمینان و سکون نصیب ہوتا۔
اِنفرادی یا اِجتماعی ذہن کا تعلّق طرزِ فکر سے ہے۔ طرزِ فکر میں اگر یہ بات ہے کہ ہماری کوشش اور اِختراعات سے نَوعِ انسانی کواور اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے تو یہ طرزِ فکرانبیاء کی طرزِ فکر ہے اور یہی طرزِ فکر اللہ کی طرزِ فکر ہے اور ان دونوں طرزوں کا اِصطلاحی نام قلندر شعور ہے۔ قلندر شعور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان کے اندر إستغناء ہے تو وہ نئی نئی بیماریوں، نئی نئی مصیبتوں اور نئی نئی پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
إستغناء حاصِل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور انسان کی طرزِ فکر، اُس طرزِ فکر سے ہم رشتہ ہو جو اللہ کی طرزِ فکر ہے۔ جب ہم زمین کے اوپر مَوجودات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی مخلوق کیلئے بےشمار وسائل پیدا کئے ہیں۔ لیکن ان وسائل میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا تعلّق براہِ راست اللہ کی کسی ضرورت سے ہو۔ اللہ ہر چیز سے بےنیاز ہے۔ باوُجودیکہ اللہ ہر چیز سے بےنیاز ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنی مخلوق کے لیے ایک قانون کے دائرے میں تسلسل کے ساتھ وسائل فراہم کرتا رہتا ہے۔ اگر کسی موسم میں آم کی ضرورت ہے تو ایک نظام کے تحت درخت پر پھول آئے گا، آم لگیں گے اور ان آموں سے لوگوں کی ضروریات پوری ہونگی۔ چونکہ انسان وسائل کا محتاج ہے، اس لیے وہ اس طرح تو وسائل سے بےنیاز نہیں ہو سکتا کہ وہ ہر طرف سے اپنا رشتہ منقطع کر لے لیکن یہ طرزِ فکر اِختیار کر سکتا ہے کہ یہ وسائل جو میری جدّوجہد سے ظہور میں آتے ہیں، پوری نَوعِ انسانی کا حصّہ ہیں۔ جس طرح میں ان سے فائدہ اٹھاتا ہوں اسی طرح نَوعِ انسانی کو فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق حاصِل ہے۔ طرزِ فکر حاصِل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان جس طرزِ فکر کو حاصِل کرنا چاہتا ہے اس سے ذہنی قربت حاصِل ہو۔ مثال کے طور پر اگرآپ کسی نیک آدمی سے دوستی کرنا چا ہتے ہیں تو اس جیسے کام کرنے لگیں گے۔ کسی جُواری کو اپنا دوست بنانا چا ہتے ہیں تو اس کے ساتھ جُوا کھیلنا شروع کر دیں گے۔ کسی اللہ والے سے دوستی کرنا چاہیں گے تو وہ تمام مَشاغل اپنا لیں گے جو اللہ والوں کیلئے پسندیدہ ہیں۔ جس مُناسبت سے اُن مشاغل کو یا ان عادت کو اِختیار کرتے چلے جائیں گے، اُسی مُناسبت سے آپ کی طرزِ فکر بدلتی جائے گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 59 تا 61
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔