اللہ میاں کی جیل
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9345
آدمی جب نیابت اور خلافت کی منزل کی طرف قدم بڑھا تا ہے تو اس کے اوپر آلام و مصائب کی گرفت ٹُوٹ جاتی ہے۔ خالق کائنات چُونکہ ہر چیز سے بےنیاز اورہر قسم کے حالات سے ماوراء ہے۔ اس لئے جب کسی بندے کے اندر خالق کائنات کی صِفات کروٹ بدلتی ہے تو اس کے اوپر وہی کیفیت وارِد ہوتی ہے جو اللہ کی صِفات کا تقاضا ہیں۔
آدم کو اللہ نے اپنے انعام و اکرامات سے نواز کر جنّت میں رکھا اور فرمایا:
اے آدم! تُو اور تیری بیوی جنّت میں رہو، جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ – 35)
آدم سے صبر نہ ہو سکا اور وہ اللہ کی نافرمانی کا مُرتکب ہو گیا جیسے ہی آدم نافرمانی کا مُرتکب ہُوا، رَوشنی کی جگہ تاریکی نے لے لی۔ خوشی کی جگہ غم چھا گیا۔ آزادی کی جگہ قیدو بند نے اپنے پنجے گاڑ دئیے اور آدم نہا یت حسرت و یاس میں جنّت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ باوُجود اس کے کہ آدم نے اللہ کی نافرمانی کی اور جنّت جیسی نعمت سے اس نے کفران کیا، اللہ نے اپنی رحیمی اور کریمی کی صِفَت سے پھر آدم کے اوپر فضل کیا، تسخیر کائنات سے متعلّق اللہ نے جو خزانے عطا فرما ئے تھے، آدم کو اُن سے محروم نہیں کیا اور کہا،
‘‘تمہارا وطن جنّت ہے۔ تم جب چا ہو اپنے وطن واپس آسکتے ہو۔ تمہیں صرف یہ کرنا ہے کہ نافرمانی کے دائرے سے باہر آ جاؤ۔ ہم اپنے منتخب لوگ بھجتےی رہیں گے، وہ تمہیں متوجّہ کرتے رہیں گے کہ تم ایک عظیم خزانے کے مالک ہو۔ ہمارے یہ پاکیزہ بندے اس راستے پر چلنے کیلئے تمہارے لئے قاعدے اور ضابطے بنائیں گے تاکہ تم آسانی کے ساتھ اپنے وطن میں داخل ہو جاؤ۔ اور یہ جو جنّت کے خلاف تم اَسفل سافلین کی زندگی بسر کر رہے ہو، یہ تمہارے لئے جیل خانہ ہے۔ اگر تم نے اس زندگی میں اپنے اور جنّت کے درمیان پردے کو نہیں ہٹایا تو جنّت تمہیں واپس نہیں ملے گی۔‘‘
قدرت نے اپنا کیا ہُوا وعدہ پورا کیا اور ظالم، سَرکَش، نافرمان، نَوعِ انسانی کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چَوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور اپنی سنّت قائم رکھنے کیلئے پیغمبروں کے وارث اولیاء اللہ کا سلسلہ قائم رکھا۔ ایسا سلسلہ جو قیامت تک جاری رہے گا۔
ہر آدمی جو ذرا بھی شعور رکھتا ہے، ہر وقت اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مر رہا ہے۔ ایک لمحہ مرتا ہے تو دوسرا لمحہ پیدا ہوتا ہے۔ دن مرتا ہے تو رات پیدا ہوتی ہے۔ بچپن مرتا ہے تو لڑکپن پیدا ہوتا ہے۔ لڑکپن مرتا ہے تو جوانی پیدا ہوتی ہے اور جوانی مرتی ہے تو بُڑھاپا پیدا ہوتا ہے اور جب بُڑھاپا مرتا ہے تو خوبصورت مُورتی کا ایک ایک عُضو مٹی کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہڈیاں، جس کے اوپر انسانی ڈھانچے کا دارومدار ہے، راکھ بن جاتی ہیں۔ دماغ، جس پرانسانی عظمت کا دارومدار ہے اور جس دماغ کے اوپر انسان اکڑتا ہے، دوسروں کے اوپر ظلم کرتا ہے، خود کو خدا کہنے لگتا ہے، اُسے بھی مٹی کھا جاتی ہے، اور مٹی کے ذرّات کے بنے ہُوئے اُس جیسے دوسرے انسان اُس دماغ کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 109 تا 111
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔