اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=382
سوال: اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں؟
جواب: روحانی زندگی میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کھانا نہ کھائے، پانی نہ پئے، کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں۔ یہ سب اس لئے ہونا ضروری ہے کہ دنیا کو وجود بخشنے والا اس دنیا میں رونق دیکھنا چاہتا ہے۔ اس دنیا کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہ اس دنیا کو خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسباب و وسائل جب تک دنیا میں موجود ہیں، دنیا موجود ہے، دنیا قائم ہے۔دنیا میں جو وسائل پیدا کئے گئے ہیں ان کا فائدہ بہرحال انسانوں کو پہنچتا ہے اور پہنچتا رہے گا۔
روحانیت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دُنیا میں رہتے ہوئے بندہ سب کام کرے ، اچھا کھائے ، بہترین لباس پہنے، چٹنی کے ساتھ مرغ بھی کھائے۔ لیکن ہر کام اور ہر عمل کا رُخ اس ذات کی طرف موڑ دے جس نے یہ دُنیا بنائی ہے۔ کھانا اس لئے کھائے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ کھانا کھائے۔ بندے کھانا نہیں کھائیں گے تو دُنیا ویران ہو جائے گی۔ پانی اس لئے پیئے تاکہ اللہ کا لگایا ہوا باغ سرسبزو شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت کریں لیکن یہ محبت اس لئے کریں کہ بچوں کی تربیت آپ کے ذمے ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ انسانی اقدار پھلیں پھولیں اور بھیڑ بکریوں سے ممتاز ایک معاشرہ قائم ہو۔ بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جائے کہ ان کی زندگی پر اللہ کی ذات محیط ہو جائے اور جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں تو ان میں یہ طرز مستحکم ہو جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر عمل کا رُخ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اللہ کی طرف موڑ دیں۔
ذرا سوچئے تو سہی کہ ہم اپنی اولاد سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہم اپنی اولاد سے الئے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے۔ اور اس سے ہماری نسل چلے گی۔ اولاد سے پیار کے سلسلے میں جب آپ اپنے عمل کا رُخ اپنی ذات کی طرف موڑ دیتے ہیں تو اولاد کی محبت میں آپ ایسے راستے اختیار کرتے ہیں کہ جن راستوں پر چل کر آپ کی اولاد کے اندر قادر مطلق اللہ سے تعلق قائم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اللہ کے لئے اولاد سے محبت کریں گے تو یہ آپ کے لئے بھی فلاح ہے اور اولاد کے لئے بھی فلاح ہے ۔ لیکن دونوں صورتوں میں خواہ آپ ذاتی طور پر اولاد کو پیار کریں اور اولاد کی تربیت کریں یا اللہ کے لئے اولاد کو پیار کریں اور تربیت کریں۔ آپ کو ہی فائدہ ہے۔
روزمرہ زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ روزی اور رزق کا حاصل کرنا ہے اس لئے کہ رزق حاصل کئے بغیر زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ بات موجود ہے کہ ہماری زندگی مختلف مراحل اور مختلف زمانوں سے مزین ہے۔ زندگی کے قیام کا پہلا زمانہ یا مرحلہ ایسی بند کوٹھری ہے جس میں بظاہر نہ ہوا کا گزر ہے اور نہ ہی اس کوٹھری میں انسان کے اپنے ارادے اور اختیار سے کھانے پینے کی چیزیں مہیاہوتی ہیں نہ ہی اس کوٹھری میں رہتے ہوئے وہ پانی روزی حاصل کرنے کے لئے کوئی محنت اور مشقت کرتا ہے۔ لیکن اسے روزی ملتی ہے اور روزی اس کی نشوونما بھی کرتی ہے۔ اس نشوونما کا دور نو مہینے کی زندگی پر مشتمل ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بتدریج اور ایک توازن کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں اور مہینے کے بعد مکمل آدمی کی شکل و صورت اختیار کر کے بچہ اس کوٹھری سے باہر آ جاتا ہے اب بھی و ہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی ضروریات خود پوری کر سکے۔ اس کی زندگی کو نشوونما دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی ماں کے سینے کو اس بچے کے لئے دودھ کا چشمہ بنا دیتا ہے۔ بچہ بغیر کسی جدوجہد کے غذا حاصل کرتا رہتا ہے اور اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ بچپن سے گزر کر لڑکپن کے زمانے میں بھی اس کو اپنی روزی حاصل کرنے کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ اس کی تمام ضروریات کا کفیل اللہ تعالیٰ نے اس بچے کے ماں باپ کو بنا دیا ہے۔ اب بچہ لڑکپن سے نکل کر شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ شعور کی دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ مجھے روزی حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ وہ اس تگ و دو میں اپنی پچھلی ساری زندگی کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ بغیر کسی جدوجہد کے بھی اللہ تعالیٰ مجھے رزق دیتے رہے ہیں۔ جوانی کے دور سے گزر کر وہ بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی اس کے اعضاء اسی طرح ہو جاتے ہیں جس طرح بچپن میں تھے اور وہ اپنی معاش حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ لیکن جب تک اس کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ اسے روزی فراہم کرتے رہتے ہیں۔
ہمارا جوانی کے دور میں یہ سوچنا کہ ہمیں رزق ہماری محنت سے ملتا ہے۔ صحیح طرز فکر کے خلاف ہے، اس لئے کہ ہماری زندگی کا تین چوتھائی بغیر محنت اور مزدوری کر کے گزرتا ہے۔ محنت، مزدوری اور کوشش اس لئے کی جانی چاہئے کہ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کو ہر لمحہ اور ہر آن متحرک دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح کہ اللہ نے ماں کے دل میں محبت پیدا کر دی اور ماں کو رزق پہنچانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ وہ نوع انسان اور زمین کے اوپر آباد تمام مخلوق کو روزی فراہم کرے۔ آپ زمین میں بیج ڈالتے ہیں۔ اگر زمین بیج کی نشوونما کرنے سے انکار کر دے تو دنیا ویران ہو جائے گی جب کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہو گی تو تمام حرکت اور تمام گردشیں رک جائیں گی۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں محبت ڈال دی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کے دل میں بھی اپنی مخلوق کی محبت ڈال دی اور اسے پابند کر دیا کہ وہ زمین پر آباد مخلوق کی خدمت کرے۔ اسی طرح چاند اور سورج کو بھی اللہ تعالیٰ نے خدمت گزاری کے لئے مسخر اور پابند کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ زمین اگر اپنا ارادہ اور اختیار استعمال کر کے گیہوں نہ اُگائے، سورج اپنی روشنی یا دھوپ سے گندم کو نہ پکارے تو آپ روٹی کیسے کھائیں گے؟ اور روٹی پر ہی کیا دارومدار ہے ہر چیز کی یہی صورت ہے۔ جب زمین پر کوئی چیز پیدا نہیں ہو گی تو ہم زندہ کیسے رہیں گے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آدمی کو رزق اس کی ذاتی محنت کی وجہ سے نہیں ملتا، رزق پہلے سے موجود ہے۔ اسے رزق حاصل کرنے کے لئے صرف حرکت کرنی پڑتی ہے۔
طرز فکر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مجھے اس لئے حرکت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حرکت پسند فرماتے ہیں، اس لئے کہ ساری کائنات بجائے خود ایک حرکت ہے۔ کائنات کا وجود اسی وقت زیر بحث آیا جب اللہ تعالیٰ کے ذہن نے حرکت کی یعنی اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ فرمایا۔ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذہن کی ایک حرکت ہے اور یہ حرکت جاری و ساری ہے۔ انسان کے اندر جب یقین راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ہر حرکت، میرا ہر عمل اللہ کے رحم و کرم پر قائم ہے۔ وہی روزی دیتا ہے۔ وہی حفاظت کرتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے، وہی آفات اور بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے، وہی خوشی دیتا ہے۔ جب آدمی کا یقین ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی طرز فکر ناقص ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے سہارے تلاش کرتا ہے۔ سیٹھ ناراض ہو جائے گا تو نوکری چلی جائے گی اور سیٹھ خوش ہو جائے گا تو ترقی مل جائے گی۔ نعوذ باللہ! سیٹھ کوئی بندہ نہیں، خدا بن گیا۔ جب کسی قوم کی طرز فکر بہت زیادہ گمراہ ہو جاتی ہے یعنی اللہ کے علاوہ دوسروں کا سہارا سمجھنے لگتی ہے تو ایسی قومیں زمین پر بوجھ بن جاتی ہیں اور زمین انہیں رد کر دیتی ہے۔ وہ مفلوک الحال ہو جاتی ہیں اور ان کے اوپر احساس کمتری کا عذاب مسلط ہو جاتا ہے۔ انبیاءؑ کی طرز زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی بات آتی ہے کہ انبیاءؑ کی طرز زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی بات آتی ہےکہ انبیاء کی طرز زندگی اور طرز فکر یہ ہے کہ وہ ہر بات، ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اللہ ہی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
ٹیگ: توکل، یقین، استغٖنا، طرزفکر، وسائل، کن، فیکون، روحانی زندگی
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 83 تا 88
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔