اعمال نامہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22093
آدمی جب مر جا تا ہے تو جو کچھ اِس نے دنیا میں کیا ہے وہ ریکارڈ ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ ذرہ برابر نیکی ہو۔ چاہے ذرہ برابر برائی ہو۔ ہر عمل اور ہرقول کی کراماً کاتبین ویڈیو فلم بناتے رہتے ہیں۔ انسان مرنے کے بعد یہی فلم دیکھتا رہتا ہے۔
مثلا ایک آدمی نے چوری کا ارادہ کیا۔ نیکی لکھنے والے فر شتے نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ یہ بُرا کام ہے اسے نہیں کر نا چاہیے اﷲ اس عمل سے نا خو ش ہو تا ہے لیکن چو ر نے اس با ت کوقبول نہیں کیا اور وہ چوری کے لیے گھر سے نکل گیا کسی گھر میں نقب لگائی اور سا مان چو ری کر کے اپنے گھر لے آیا۔ مذہبی اعتبا ر سے اس کے ذہن میں یہ با ت ہے کہ چو ری کی سزا ہا تھ کٹنا ہے۔
مر نے کے بعد اس چو ر کو یہ پوری فلم دکھائی جا ئے گی۔اور چو ری کے نتیجہ میں فلم میں اُس کا ہاتھ بھی کا ٹ دیا جائے گا۔چور جب اپنی ذات سے متعلق فلم دیکھتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ میں فلم دیکھ رہا ہوں ۔
جب اس کا ہا تھ کٹتا ہے تو وہ فلم میں اپنا ہاتھ کٹا ہوا دیکھتا ہے اور اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔
ایک نیک آدمی نما ز کے لئے مسجد گیا نماز ادا کر نے کے بعد اﷲ کے گھر میں آرام سے بیٹھ گیااﷲ سے تعلق کی بنا ء پر مسجد میں اسے سکو ن ملا اﷲ کے ذکر کی نو رانی لہروں نے اسے راحت بخشی اور وہ اﷲ کی میز با نی سے خو ش ہو گیا یہ فلم گھر سے نکلنے کے وقت سے مسجد میں بیٹھنے اور نو رانی لہروں سے سیر اب ہو نے کے وقت تک بنتی رہتی ہے۔ جب یہ بندہ دنیا سے رخصت ہو جائے گا تو اسے نیکی کے عمل اور نیکی کی فلم دکھائی جائے گی۔ یہ فلم دیکھ کر اُسے خوشی اور سکون ملے گا۔
منکر نکیر مرنے کے بعد پہلی ملاقات میں سوالات کر کے یہ بتادیتے ہیں کہ نیکی اور برائی میں بندہ کی کیا حیثیت ہے۔ اگر وہ نیک ہے تو جنت کے نظاروں سے مستفیض ہوتا ہے، برائی کا پیکر ہے تو دوزخ کا عذاب نظروں کے سامنے آتا رہتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 120 تا 121
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔