اساتِذہ کا کردار
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20163
یہ بات بھی دھوپ کی طرح روشن ہے کہ اگر ماحول میں اساتذہ کا کردار نہ ہو تب بھی بچہ عالم فاضل اور دانشور نہیں ہوسکتا۔
ماحول میں اساتذہ کے کردار کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کیلئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہوں۔جس طرح دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کا ہونا ضروری ہے اسی طرح علمِ طریقت ، تصوّف یا روحانی علوم سیکھنے کے لئے درسگاہیں( خانقاہی نظام) ضروری ہے۔
جب سے خانقاہی نظام پر قدغن لگائی گئی ہے۔اسی وقت سے انسان بے سکو ن ، بے چین ، پریشان ،ایڈزاور کینسر جیسے موذی مرض کا شکار بن گیا ہے۔اس لئے کہ انسان کا مادی وجود سڑاند اور تعفن کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ سڑاند اور تعفن میں امراض ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔
دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک اور احادیث کی تعلیم کے مطابق جسمانی وجود کو زندہ رکھنے والی ، سہارا دینے والی ،روح کا ادراک ضروری ہے اور روح کے ادراک کیلئے بیعت یعنی روحانی استاد کی شاگردی ضروری ہے۔تصوّف کا اصل اصول یہ ہے کہ روح (انسان کی اصل)نور اور روشنیوں سے بنی ہوئی ہے جب تک روشنیوں کا انسان مادی جسم کو اپنا معمول بنائے رکھتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور جب روشنیوں کا انسان مادی عناصر سے بنے ہوئے جسم کو چھوڑ دیتا ہے تو آدمی مرجاتا ہے۔
روحانی استاد ، عرفِ عام میں جسے مرشد کہا جاتاہے اس قانون سے واقف ہوتا ہے اور یہ علم اسے اپنے مرشد اور سےّدنا حضور علیہ الصلوۃ السلام سے منتقل ہوتاہے۔
روحانی شاگرد یا مرید جب مرشد کے حلقہ میں آجاتا ہے تو مرید کے اندر Positive اور Negative روشنیوں کا نظام بحال ہوجاتا ہے۔مرید کی روشنیوں میں مراد کی روشنیاں شامل ہوجاتی ہیں۔اس عمل سے بتدریج تعنّم کم ہوتا رہتا ہے ۔ جس مناسبت سے تعنّش کم ہوتا ہے اسی مناسبت سے لطیف روشنیوں کاذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔
مرید ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ شیخ کی زندگی کے احوال واعمال سے مرید مطمئن ہو اگر مرید اور مراد میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو مرید کرنا یا مرید ہونا دونوں باتیں عقل و شعور کے خلاف ہیں۔
مختصراً اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مراد اور مرید دونوں کے مزاج میں ،عادات و خصائل میں ، نشست وبرخاست میں ، وضع داری میں ،طریقت و شریعت میں پوری طرح مطابقت نہیں ہوگی بیعت کا فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 62 تا 63
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔