ارتقاء
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26234
ابھی تک سائنسی دنیا میں کوئی ایسا علم مظہر نہیں بنا جو اس بات کی تشریح کردے کہ بساط کیا ہے؟ کوشش لوگوں نے بہت کی کہ بساط پر سے پردہ اٹھ جائے مگر پردہ تو جب اٹھے گا جب کہیں پردہ ہو۔اگر کہیں کسی کو پردے کے بارے میں کوئی خبر مل گئی ہے تو وہ خبر بھی خود پردہ ہے۔
نقاب رخ الٹ دیا جائے تو بڑی سے بڑی دانشورانہ بات، ایک نہ سلجھنے والی گتھی ہے۔ اگر لاشعور اور ورائے لا شعور کی اصطلاحات کا سہارا لے کر کچھ عرض کیا جائے تو وہ پردہ اٹھ جاتا ہے جس پر انسانی ارتقاء کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔
ارتقاء کیا ہے؟
ارتقاء یہ ہے کہ آدمی اپنی برائیوں کمزوریوں اور کوتاہیوں کو چھپاتا ہے اور خود کو دوسروں سے اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں بھی کائنات کے کنبے کا ایک فرد ہوں وہ کنبہ جو زمین پر آباد ہے۔ مفت خوری جس کا طرۂ امتیاز ہے۔ پیدا کوئی کرتا ہے۔ کہاجاتا ہے ماں نے پیدا کیا۔ کفالت کوئی کرتا ہے کہا جاتا ہے باپ نے پرورش کی۔ عقل و شعور پتہ نہیں کہاں سے ملتا ہے کہا جاتا ہے کہ حجروں اور مدرسوں سے شعور ملا ہے۔آدمی زمین پر دندناتا پھرتا ہے۔ زمین کو اپنے نوکیلے خنجروں سے چیر کر اس میں دانہ ڈالتا ہے اور زمین سے خراج وصول کرتا ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ زمین کا بھی کوئی حق ہے۔
جس اﷲ نے زمین دی، ایک پھوٹی کوڑی لئے بغیر پانی دیا،ضرورت سے زیادہ وافر مقدار میں ہوا دی۔اس کا تذکرہ آبھی جائے تو ایسا لگتاہے کہ بیکار بات کہی جارہی ہے۔بڑا ہو، چھوٹاہو،کم عقل ہویا دانشور،غریب ہو یادولت کا پجاری قارون ہو۔سب مفت خور ے ہیں نہ صرف مفت خورے بلکہ احسان فراموش بھی ہیں۔
انسان ایک پتلا ہے پتلے میں خلاء ہے خلاء میں کل پرزے ہیں۔ہر کل دوسری کل سے جڑی ہوئی ہے اور ہر پرزہ دوسرے پرزے میں پیوست ہے۔اس طرح کہ کہیں بھی کوئی حرکت ہوتو سارے کل پرزے متحرک ہو جاتے ہیں۔کل پرزوں سے بنی مشین کو چلا نے کے لئے پتلے میں چابی بھر دی گئی تو پتلا چلنے پھرنے لگا۔چلنے پھرنے،اچھلنے کودنے اور محسوس کرنے کے عمل سے پتلے میں ـ’’میں‘‘پیدا ہوگئی۔ ـ’’میں‘‘جانتی ہے کہ چابی ختم ہو جائے گی ـ’’میں‘‘کا وجود عدم ہو جا ئے گااورپتلا باقی رہ جائے گا۔
لوگ اس ـ’’میں‘‘کوایک فردمانتے ہیں۔ ـ’’میں‘‘کوایک ہستی تسلیم کرتے ہیں۔ ذات، انا اور ہستی کیوں ہے یہ کوئی نہیں جانتا عجب تماشا ہے کہ ـ’’میں‘‘بھی خود کو نہیں جانتی۔جب کوئی بندہ خود کو فرد کے روپ میں دیکھتاہے۔توظاہر الوجود نظر آتاہے اور جب بندہ خود کو ہڈیوں،پٹھوں اور کھال میں منڈھے ہوئے صندوق کے اندر تلاش کرتاہے تو اپنی ذات نظر نہیں آتی۔
عالم ایک نہیں بے شمار عالمین ہیں اور ان عالمین میں لاکھوں کہکشائیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری کائنات sparkingکامسلسل اور متواتر عمل ہے۔لیزربیم سے بھی زیادہ لطیف روشنی میں کائنات بندھی ہوئی ہے اوراس کائنات میں وہ کچھ ہے جسے ظاہر وجود کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔شعورادراک نہیں کرسکتا،عقل کی وہا ں تک رسائی نہیں۔کسی نے دیکھنے کا دعوٰی بھی کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 273 تا 275
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔