احد کے میدان میں۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=359
ایک طرف جب کہ مکہ کے رہنے والے اپنے اۤپ کو مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کے لئے تیار و اۤمادہ کررہے تھے تو دوسری طرف مدینہ میں وہ لوگ جو اسلام دشمن تھے ہجو اۤمیز اشعار کی اۤڑ میں مسلمانوں کے مقابل نکل اۤئے تھے۔ ابوسفیان نے مکہ پہنچ کر فوج کی تنظیمِ نو کی اور ہجرت کے تیسرے سال شوال کے مہینے میں مدینہ کی طرف کوچ کیا۔
اس مرتبہ تین ہزار جنگجو سپاہی ابوسفیان کے زیرِکمان تھے۔ جن میں سات سو سپاہی مکمل طور پر مسلّح پوش تھے۔ صفوان اس فوج کا نائب سالار تھا۔ ابوسفیان کے ہمراہ مدینہ اۤنے والے دوسرے سرداروں میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی شامل تھا۔ جس کے سینے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اۤگ بھری ہوئی تھی۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی مدینہ کی طرف عازمِ سفر ہوئی وہ اعلان کرچکی تھی کہ مسلمانوں کے ناک، کان اور ہاتھ کاٹ کر ان کا ہار اپنے گلے میں ڈالے گی۔
سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ساتھیوں کے مشورے سے مدینہ سے باہر نکل کر کفّارِ مکہ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور احد کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ منافقین نے شریک ہونے سے انکار کردیا۔ عبداﷲ بن ابی ان کا سربراہ تھا۔ سورۃ اۤلِ عمران میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:
”اور تاکہ اﷲ انہیں بھی جان لے جنہوں نے منافقت کی، اور ان سے کہا گیا کہ اۤؤ اﷲ کی راہ میں لڑائی کرو یا دفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم لڑائی جانتے تو یقیناً تمہاری پیروی کرتے یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت اۤج کفر کے زیادہ قریب ہیں۔ منہ سے ایسی بات کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہے، اور یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اﷲ اسے جانتا ہے۔”
میدانِ جنگ میں لشکر کی ترتیب و تنظیم قائم کرکے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مقامات پر دستے متعین فرمائے اور ہدایت کی کہ کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔
جنگِ احد میں بڑے نامی گرامی کفّار ہلاک ہوئے۔ ان کی صفیں درہم برہم ہوگئیں۔ جوش و غیرت کے لئے دف بجا بجا کر اشعار سنانے والی قریشی عورتیں کفّار کی پسپائی دیکھ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ قریشِ مکہ کا جھنڈا جب زمین پر گر گیا اور دوسرا کوئی کافر اسے نہ اٹھا سکا تو فوج کے حوصلے پست ہوگئے اور فوج اپنے سپاہیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہوگئی۔
متعین جگہ پہاڑی پر موجود مسلمانوں نے اپنی جگہ چھوڑی اور مالِ غنیمت سمیٹنے لگے۔ مسلمان حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے برخلاف میدان میں کود پڑے۔ تو خالد بن ولید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ پہاڑی مورچوں پر موجود چند مسلمان جنہوں نے جگہ نہ چھوڑی تھی مشرکین کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف اس عمل سے مشرکین نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کافر فوج کا جھنڈا ایک عورت نے اٹھا کر ہوا میں بلند کردیا۔ مشرکین کی پسپا فوج واپس پلٹ اۤئی اور مالِ غنیمت سمیٹتے ہوئے مسلمان چاروں طرف سے ان کے نرغے میں اۤگئے۔ مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی۔ کسی نے اعلان کردیا کہ محمدؐ شہید ہوگئے۔ لشکر اۤپس میں گڈمڈ ہوگئے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان شہید ہوگئے۔ افراتفری کے عالم میں مسلمان جب منتشر ہونے لگے تو سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پکار کر بلند اۤواز سے کہا ”میری طرف اۤؤ! میں اﷲ کا رسول ہوں” یہ صدا کفار نے بھی سنی اور وہ مسلمانوں سے پہلے ہی اۤپؐ تک پہنچ گئے۔ اس وقت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب نو(۹) صحابۂ کرامؓ موجود تھے۔ کفّار نے بھر پور حملہ کیا اور اس معرکہ اۤرائی میں سات صحابی شہید ہوگئے۔ مشرکین چاہتے تھے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو شہید کردیں لیکن جانثاروں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے انہیں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچنے دیا۔ اس حملے میں عقبہ بن ابی وقاص نے سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب پتھرپھینکا جس سے اۤپؐ پہلو کے بل گرگئے اور اۤپؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوگئے۔ اۤپؐ کا نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ایک مشرک نے اۤپؐ کی پیشانی زخمی کردی ایک اور نے اتنے زور سے تلوار ماری کہ اۤپؐ ایک عرصہ تک کندھے پر چوٹ کا اثر محسوس کرتے رہے۔ اسی نے دوسرا وار چہرے پرکیا جس سے خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور اۤنکھ کے نیچے کی ابھری ہوئی ہڈی پر زخم اۤئے۔
اس موقع پر جانثاری کی اعلیٰ ترین مثالیں سامنے اۤئیں۔ جس وقت سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام چوٹ کھاکر زمین پر گرے حضرت طلحہؓ اۤپؐ پر بچھ گئے اور کفارِ مکہ کے بیشتر حملے انہوں نے اپنے جسم پر روک لئے۔ حضرت ابودجانہؓ دشمنوں میں گھرے ہوئے اپنے محبوب پیغمبرؐ تک پہنچے تو اۤپؐ کے اۤگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے اور تیروں کی برسات روکنے کے لئے اپنی پیٹھ کو ڈھال بنادیا۔
اس نازک ترین لمحہ اور مشکل ترین وقت میں اﷲ نے غیب سے مدد نازل فرمائی۔ سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حفاظتی دستہ میں شامل حضرت سعدؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز اس لمحہ انہوں نے دو سفید پوش اۤدمیوں کو دیکھا جو مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں سے سیّدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت کر رہے تھے۔
کافر فوج نے سیّدنا علیہ الصلٰوۃوالسلام کی شہادت کی افواہ پھیلا کر مسلمانوں میں بددلی پھیلا دی تھی۔ حضرت انسؓ کے چچا حضرت انس بن نصرؓ نے دیکھا کہ چند مسلمان ہتھیار پھینک کر حوصلہ ہارے بیٹھے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ لڑتے کیوں نہیں؟ لوگوں نے جواب دیا ۔ اب ہم لڑکر کیا کریں گے؟ جس کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہوگئے۔حضرت انس بن نصرؓ نے خطاب کیا”اگر واقعی محمد الرسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو پھر ان کے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ چلو شہادت کے راستے پر قدم بڑھاؤ کہ ہم بھی اۤپؐ سے جاملیں۔” یہ کہہ کر دشمنانِ اسلام کی فوج میں گھس گئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔ شہید ہونے کے بعد دیکھا گیا تو جسم پر اسی(۸۰) سے زیادہ زخم تھے۔ تیر’ تلوار اور نیزے کے اتنے وار ان پر کئے گئے تھے کہ کوئی ان کی لاش نہ پہچان سکا۔ ان کی بہن نے انگلیاں دیکھ کر شہید بھائی کو پہچانا۔
قریش کے غلاموں میں ایک سیاہ فام غلام بھی تھا جس کا نام ”وحشی” تھا۔ اس نے لالچ میں حضرت حمزہؓ کو ڈھونڈ لیا اور ان کی تاک میں بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہؓ بڑی دلیری سے تلوار چلارہے تھے۔وحشی کو ان کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ وحشی نے جب دیکھا کہ حضرت حمزہؓ کی پیٹھ اس کی طرف ہے تو اس نے اپنا نیزہ اتنی قوت سے ان کی طرف پھینکا کہ نیزے کی نوک سینے کے پار ہوگئی اور حضرت حمزہؓ کی روح پرواز کرگئی۔ جب ہندہ نے یہ سنا کہ حمزہؓ وحشی کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں تو اس نے اسی لمحہ نہ صرف یہ کہ وحشی کو اۤزاد کردیا بلکہ میدان جنگ میں کھڑے کھڑے اپنے کنگن اور ہار اتار کر اسے بخش دیئے۔ اور ایک تیز دھار چاقو سے حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کر کے جگر نکال کر چبابا شروع کردیا۔ پھر اس نے ان کے ناک اور کان کاٹے۔ ہندہ جگر خور نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ قریب پڑی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناک کاٹ کر ڈوری میں پرو کر ہار بنایا اور گلے میں ڈال کر وحشیانہ رقص کیا۔ہندہ کے علاوہ قریش کی ایک اور عورت ”سلافہ بن سعد” بھی میدان جنگ میں وارد ہوئی۔ درندہ صفت سلافہ بن سعد اس مسلمان شہید کا سر کاٹ کرلے گئی جس نے جنگ بدر میں اس کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ بہت مکروہ چیخ میں اس نے کہا جب تک میں زندہ ہوں کھو پڑی کے اس پیالے میں پانی پیا کروں گی۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دیکھا کہ چچا کا پیٹ اور سینہ چاک ہے اور کلیجہ چبا کر پھینک دیا گیا ہے ۔ کان اور ناک بھی کٹے ہوئے ہیں تو اۤپؐ بے انتہا غمگین ہوئے۔وحشی جب ابو سفیان کی فوج سے بھاگ کر رسول ا للہ صلی ا للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اقرار کیا کہ وہ حضر ت حمزہؓ کا قاتل ہے تو حضور علیہ الصلٰوۃوالسلام نے اس کو معاف کردیا۔ اۤپؐ نے صرف اتنا کہا کہ وہ کبھی ان کی نظروں کے سامنے نہ اۤئے۔ لہذا اس دن کے بعد وحشی کبھی بھی اۤپؐ کے سامنے نہیں اۤیا۔لیکن اس نے حضرت حمزہؓ کا خون بہا ادا کرنے کے لئے مسلیمہ کذاب سمیت حضور علیہ الصلٰوۃوالسلام کے کچھ دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جنگ ِ احد میں مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث یہہودیوں نے پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ یہودیوں نے لوگوں سے کہا اگر محمدؐاللہ کے رسول ہوتے تو انہیں شکست نہ ہوتی۔ اس موقع پر سورۃ اۤل عمران کی یہ اۤیت نازل ہوئی۔
ترجمہ و مفہوم:
” کافروں کا مقابلہ کرنا نبیوں کا قدیم دستور ہے ۔ اس سے پہلے بھی نبیوں پر تکالیف گزری ہیں۔ لیکن وہ یاس و ناامیدی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ وہ استقامت اور پائیداری کی وجہ سے کامیاب ہوئے اوراللہ صاحب استقامت لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 123 تا 130
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔