آکسیجن اور جسمانی نظام
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9397
مَوجودہ علمی اور سائنسی دَور نے یہ بات معلوم کر لی ہے کہ انسان کو اگر کچھ وقفے کیلئے آکسجن نہ ملے تو اس کے دماغ میں کام کرنے والے کھربوں خلیوں کا عمَل ختم ہو جاتا ہے۔ سارا جسم آکسجن کے اوپر قائم ہے اور سانس کی آمد و شُد یا عمَلِ تنفس ہَوا سے آکسجن حاصِل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں کھنچیے جاتی ہے اور آوازکے خانے (Larynx) سے گزرتی ہوئی ہَوا کی خاص نالی (Trachea) میں جاتی ہے اور پھر وہاں سے نالیوں کے ایک نازک نظام میں داخل ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے ہَوا آگے بڑھتی ہے، ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ ان نا لیوں کا قُطر بتدریج چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔ چناچہ ہَوا پھیپھڑوں کے اِنتہائی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے جہاں تقریباً تین سو ملین ہوا کی تھیلیوں سے گزر کر آکسجن خون میں داخل ہو جاتی ہے۔ اگر ہَوا کا دباؤصحیح ہو اور آکسجن کی مقدار بھی صحیح ہو تو پھر وہ آسانی سے ہَوا کی تھیلیوں اور باریک رگوں کی جِھلّیوں میں سے ہو کر اندر پھیل جاتی ہے۔ جب ہم اندر سانس کھنچتے ہیں تو سینے کی خالی جگہ بڑی ہو جاتی ہے لہذا ہَوا تیزی سے اندر چلی جاتی ہے۔ پھر ہم جب سانس باہر نکالتے ہیں تو پھیپھڑوں کا لچک دار نظام ہَوا کو باہر پھینک دیتا ہے۔
سانس لینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جسم میں مناسب مقدار میں آکسجن پہنچتی رہے۔ تاکہ خلیوں میں ننھی ننھی انگیٹھیاں دہکتی رہیں۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ CO2 خارج ہوتا رہے۔ انسان جب آرام کرتا ہے تو وہ ایک منٹ میں دس سے سولہ بار تک سانس لیتا ہے اور تقریباً ایک پوائنٹ ہَوا اندرونی جسمانی نظام میں داخل ہوتی رہتی ہے جب آکسجن کی ضرورت پیش آتی ہے تو سانس لینے کی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے عام طور پر سانس کی رفتار اور گہرائی خود بخود دماغ کنٹرول کرتا رہتا ہے۔
قدرت نے انسان کے اندر صلاحیّت پیدا کی ہے کہ وہ حسبِ ضرورت سانس میں تیزی یا کمی پیدا کر سکتا ہے۔ انسان اگر ذہنی طور پر صحت مند ہے تو بیشتر حالات میں اُسے سانس پر اِختیار حاصِل ہوتا ہے۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ پَیراکی کے دَوران جب آدمی غوطہ لگا کر پانی کے نیچے چلا جاتا ہے تو اسے سانس روکنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور یہ کام وہ آسانی کے ساتھ کر لیتا ہے اور جب جمائی آتی ہے یا گہرا سانس لیا جاتا ہے تو اسے سکون حاصِل ہوتا ہےاور جب سانس کی نالی میں کوئی خرابی واقع ہو جاتی ہے تو آدمی بےحد سراسیمہ ہو جاتا ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے۔ سانس جاری ہے تو زندگی بےقرار ہے اور سانس کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
سانس کا تعلّق آکسجن کے اوپر ہے۔ آکسجن کا ایک بڑا ذخیرہ دماغ کے ایک مخصوص حصّے میں جمع رہتا ہے۔ دماغ کا یہ وہی حصّہ ہے جو دل کی دھڑکن اور عمَلِ تنفس کو بےقرار رکھتا ہے۔ فی الواقع انسان کی موت اُس وقت واقع ہوتی ہے جب دماغ کے اندر آکسجن کا پورا ذخیرہ ختم ہو جائے۔ دل کی حرکت اگر بند ہو جانے سے موت واقع ہو جائے اور دماغ کے اندر آکسجن کا ذخیرہ مَوجود ہے تو اِس عمَلِ مَوت کو مَرنا نہیں کہتے، طبی اِصطلاح میں اسے سکتہ کہا جاتا ہے۔ یہ روز مرہ مشاہدے کی بات ہے کہ بیمار کو نازک حالت میں آکسجن دی جاتی ہے۔ اور اس طرح بڑی سے بڑی بیماری پر عارضی طور پر سہی، مگر غلبہ حاصِل کر لیا جاتا ہے۔ اَحسنُ الخالقین اللہ نے ہمارے پھیپھڑوں کی تخلیق کچھ اس طرح کی ہے کہ تمام جسم کا خون تین منٹ میں پھیپھڑوں کے راستے آکسجن لیکر واپس جسم میں چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر تین منٹ کے بعد دَور کرنے والا خون آکسجن لینے کیلئے دوبارہ پھیپھڑوں میں آ جاتا ہے۔ ہم جب سانس اندر کھنچتے ہیں تو ہوا میں اکیس فیصد آکسجن ہمارے اندر چلی جاتی ہے۔ اور جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو آکسجن خارج ہونے کے بعد تقریباً بارہ فی صد رہ جاتی ہے مشق کے ذریعے اگر دماغ کے اندر آکسجن کا ذخیرہ کر لیا جائے اور روحانی طرزوں میں اس ذخیرے کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا جائے تو اپنے اِرادے اور اِختیار سے دل کی دھڑکن اور عمَل تنفس کو بند کرکے آدمی مہینوں تک زندہ رہ سکتا ہے اور اپنے اِرادے اور اِختیار سے دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی عارضی موت سے نجات حاصِل کر لیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 140
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔