آسمانی رنگ کیا ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=172
آسمانی رنگ کیا ہے؟
آسمانی رنگ فی الحقیقت کوئی رنگ نہیں بلکہ وہ ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو ستاروں سے آتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ کہیں بھی ان ستاروں کا فاصلہ پانچ نوری سالوں سے کم نہیں ہے۔ (ایک کرن ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے)۔ اسی طرح نوری سال کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔
ہر ستارہ کی روشنی سفر کرتی ہے اور سفر کرنے کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے، ان میں ایک کرن کا کیا نام رکھا جائے یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے، نہ انسان کرن کے رنگ کو آنکھوں میں جذب کر سکتا ہے۔ یہ کرنیں مل جل کے جو رنگ بناتی ہیں، وہ تاریک ہوتا ہے اور اس تاریکی کو نگاہ آسمانی محسوس کرتی ہے، انسان کے سر میں اس کیفضا سرایت کر جاتی ہے نتیجے میں وہ لاتعداد خلئے جو انسان کے سر میں موجود ہیں اس فضا سے معمور ہو جاتے ہیں اور یہاں تک معمور ہوتے ہیں کہ ان خلیوں میں مخصوص کیفیات کے علاوہ کوئی کیفیت سما نہیں سکتی، یا تو ہر خلیے کی ایک کیفیت ہوتی ہے یا کئی خلیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے ایک دوسرے کی کیفیات شامل ہو جاتی ہیں لیکن یہ اس طرح کی شمولیت نہیں ہوتی کہ بالکل مدغم ہو جائے بلکہ اپنے اپنے اثرات لے کر خلط ملط ہو جاتی ہے اور اس طرح دماغ کے لاتعداد خلیے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور یہاں تک پیوست ہوتے ہیں کہ ہم کسی خلیے کا عمل یا رد عمل ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے بلکہ وہ مل جل کر وہم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ انسان توہماتی جانور ہے تو بے جا نہیں ہو گا، خلیوں کی یہ فضا توہمات کہلا سکتی ہے یا خیالات یا محسوسات ۔ یہ توہماتی فضا دماغی ریشوں میں سرایت کر جاتی ہے، ریشے جو باریک ترین ہیں۔
خون کی گردش رفتار ان میں تیز تر ہوتی ہے، اسی گردش رفتار کا نام انسان ہے، خون کی نوعیت اب تک جو کچھ سمجھی گئی ہے فی الواقع اس سے کافی حد تک مختلف ہے۔
آسمانی فضا سے جو تاثرات دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں، وہ ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور حقیقت میں ان کو توہمات یا خیالات کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا، جب آسمانی رنگ کی فضا خون کی رو بن جاتی ہے تو اس کے اندر وہ حلقے کام کرتے ہیں جو دوسرے ستاروں سے آئے ہیں وہ حلقے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس قدر چھوٹے کہ دوربین بھی نہیں دیکھ سکتی لیکن ان کے تاثرات عمل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، انسان کے اعصاب میں وہی حرکات بنتے ہیں اور انہی کی زیادتی یا کمی اعصابی نظام میں خلل پیدا کرتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 7 تا 8
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔