یَومِ اَزل کا وعدہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19661
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ تم لوگ اپنے وعدے سے پھرگئے ہو (جو وعدہ تمہاری روحوں نے یوم ِ ازل میں اﷲ سے کیاتھااور تم نے قالوا بلٰی کہہ کر اﷲ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا) غصہ اور انتقام کے جذبے نے تمہیں اندھا کردیا ہے تم لوگوں نے اﷲ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی ہے‘‘۔
(سورۂ اعراف آیت نمبر ۷۶۔۷۷)
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ بت تراش اور بت پرست قوم سے بیزار ہوئے انہیں خدا کو جاننے پہچاننے اور عرفان حاصل کرنے کی آرزو ہوئی،ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اماں سے پوچھا ’’اے ماں! تیرا خدا کون ہے؟ بیٹا میرا خدا تیرا باپ ہے جو میری ضروریات کا کفیل ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا اماں جی! میرے باپ کا خدا کون ہے؟ ماں نے بتایا کہ آسمان پر چمکنے والے ستارے تیرے باپ کے خدا ہیں‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔ان کے اندر کے نور نے خدا کی تلاش کے لئے انہیں بیقرار کردیا۔
رات اندھیری ہوگئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہوگیا،تو آپ ؑ نے کہامیں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔پھر جب چاند کوچمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا! یہ میرا رب ہے۔تو جب وہ غروب ہوگیا تو فرمایا! اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاتا پھر آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے! یہ سب سے بڑا ہے تو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اے قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
اﷲتعالیٰ نے مظاہر فطرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو اپنی جانب منسوب کیا ہے۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ پھر ہم نے ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں عجائبات دکھائے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے‘‘۔
(سورۂ انعام آیت نمبر ۷۵)
قرآن پاک میں مذکور ہے:
’’ اور یاد کرو کتاب میں اسماعیل ؑ کا ذکر تھا۔ وہ وعدہ کا سچا،اور تھا رسول اور نبی اورحکم کرتا تھا اپنے اہل کو صلوٰۃ کا اور تھا وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ‘‘۔
(سورۂ مریم آیت نمبر ۸۴۔۸۵)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 14 تا 15
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔