ہم چلتے ہیں توزمین ہمیں دھکیلتی ہے
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26433
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدموں کے نیچے سے سرکنے والی سڑک جب گزوں میں یا فرلانگ میں پیروں کے نیچے سے نکل گئی تو بیس 20منٹ کا وقت بھی گزر گیا۔
تینوں میں سے ایک چھوٹے قد کے آدمی نے سوال کیا․․․․․ دوستو! ہم جب سے چلے ہیں سڑک ہمارے پیروں میں سے نکل رہی ہے․․․․․ ہم آگے بڑھ رہے ہیں․․․․․ سڑک پیچھے جارہی ہے․․․․․ ہم اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سڑک ہمیں آگے دھکیل رہی ہے؟
دوسرا آدمی بولا․․․․․ دوستو!․․․․․ سڑک اگر ہمیں دھکیل رہی ہے تو ہمیں چلتے ہوئے بیس 20منٹ گزر گئے ہیں یہ بیس منٹ کا وقت کیا ہے؟
تیسرے آدمی نے کہا․․․․․ میں تو یہ سمجھا ہوں کہ ہمارا ایک قدم جب اُٹھتا ہے تو دوسرا قدم سڑک پر ہوتا ہے․․․․․ اب جب دوسرا قدم اُٹھتا ہے تیسرا قدم سڑک پر ہوتا ہے اور ان دونوں قدموں کے اُٹھنے کے درمیان جو کچھ ہے وہ اسپیسSPACE ہے․․․․․ اور دونوں قدموں کے درمیان اگر سیکنڈ کا FRICTIONبھی گزرا ہے تو وہ ٹائم TIMEہے۔
تینوں مسافر چلتے چلتے رُک گئے․․․․․ اور سڑک کے کنارے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے․․․․․ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ایک مسافر بولا۔
یارو!․․․․․ ہماری نشست قدرتی طور پر ایسی ہے کہ ہم اُسے مثلث کہہ سکتے ہیں۔
کیا مثلث بننا اتفاق ہے؟․․․․․ یا اس کے پیچھے کوئی حکمت ہے؟
کوتاہ قد آدمی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا․․․․․ اوپر دیکھو!․․․․․ درخت گول ہے۔
لگتا ہے کہ مثلث ایک گول دائرے یا چھتری کے نیچے ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ چھتری بھی زمین کے اوپر قائم ہے اور ہم تینوں بھی زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب ہم چل رہے تھے تو زمین پیچھے ہٹ رہی تھی۔ اب ہم بیٹھے ہیں زمین اپنی جگہ پر قائم ہے․․․․․ درخت کی گولائی (چھتری) اور ہمارا مثلث میں بیٹھنا کوئی ہم معنی بات ہے؟
تیسرا آدمی گفتگو میں شریک ہوا․․․․․ اُس نے کہا․․․․․ دوستو!․․․․․ درخت کی گولائی ایک تنے پر قائم ہے اور درخت کا تنا زمین پر قائم ہے․․․․․ کیا زمین، درخت کے تنے، پتوں اور شاخوں سے بنی ہوئی گول چھتری میں کوئی پیغام ہے؟
ضروراس میں کوئی حکمت نظر آتی ہے․․․․․
تینوں مسافر اس مسئلے کو سلجھانے میں اتنے زیادہ منہمک ہوگئے کہ اُنہیں وقت کا احساس نہیں رہا․․․․․ جب وقت کا احساس ہوا تو ایک گھنٹہ گزر چکا تھا․․․․․ ایک مسافر بولا․․․․․ کہ جب ہم سڑک پر چل رہے تھے․․․․․ چونکہ ہمارے قدم اُٹھ رہے تھے․․․․․ اس لئے سڑک پیچھے جارہی تھی۔ ہم آگے جارہے تھے․․․․․ قدموں کے یکے بعد دیگرے اُٹھنے میں اور زمین پر پڑنے میں جب سڑک کافی پیچھے رہ گئی تو ہم نے دیکھا کہ 20 منٹ کا وقت گزر چکا ہے لیکن اب ہم بیٹھے باتیں کررہے ہیں․․․․․ چل نہیں رہے ہیں تو ایک گھنٹے کا وقت کیسے گزر گیا؟․․․․․ کیا وقت کا تعلق چلنے سے ہے یا وقت چلنے کے بغیر بھی گزرتا ہے․․․․․ نمبر تین مسافر جو راستے میں شریکِ سفر ہوا تھا․․․․․ اُس نے کہا․․․․․ بھائیو!․․․․․ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم چل رہے تھے جب بھی وقت گزرا اور جب ہم بیٹھ گئے تب بھی وقت گزرا․․․․․ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کی حیثیت ثانوی ہے اور SPACE کو اولیت حاصل ہے۔
یہ ایسا گھمبیر اور مشکل تجزیہ تھا کہ دونوں دوست حیران رہ گئے․․․․․ کہ SPACE جب ہوگی تو حرکت ہو نہ ہو وقت گزرے گا۔ SPACE نہیں ہوگی وقت نہیں گزرے گا۔
تینوں میں سے ایک نے کہا․․․․․
انسان کی پیدائش بھی SPACEمیں ہوئی۔ رحمِ مادرSPACEہی تو ہے․․․․․ SPACE میں جب نطفہ قرار پاجاتا ہے تو وقت بھی شروع ہوجاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رحم میں نطفہ قرار نہ پائے اور نومہینے کے بعد ولادت ہوجائے․․․․․
ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ زمین SPACEنہ ہو اور کوئی بچہ جوان ہوجائے․․․․․ اور کوئی جوان بوڑھا ہوجائے․․․․․ انسان کی زندگی چاہے ساٹھ سال کی ہو چاہے سو سال کی ہو․․․․ SPACEہوگی تو وقت ہوگا۔ کوئی آدمی SPACEکے بغیر ساٹھ سال کا یا سوسال کا نہیں ہوسکتا․․․․․ SPACE کا پھیلاؤ یا SPACEکا سمٹنا ہی وقت کا تعین ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 304 تا 306
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔