ہر مخلوق دوسری مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20123
ہر مخلوق کا ہر فرد جس طرح زمین کو دیکھتا ہے اس طرح آسمان کو بھی دیکھتا ہے۔زمین پر دیکھتا ہے تو اسے پہاڑ نظر آتے ہیں۔زمین کے اندر دیکھتا ہے تو معدنیات کا سراغ ملتا ہے۔ذہن پانی میں اترجاتا ہے تو پانی کی مخلوق کاادراک ہوتاہے۔ کوئی صاحبِ فہم انسان پانی کی مخلوق کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر عجائبات کی دنیا کھل جاتی ہے۔چھوٹی مچھلی ایک انچ سے بھی کم اور بڑی وہیل مچھلی، گھونگھے ، مرجان سیپ کے پیٹ میں موتی ، Sea Foodوغیرہ سمندر کی مخلوق ہیں۔
جب انسان کی نظر زمین کے گرونواح سے نکل کر آسمان کو دیکھتی ہے۔ آسمان میں دس ہزار ستاروں پر پڑتی ہے تو انسان ستارے کے بشریٰ کودیکھتاہے ۔ ستارے اس کو نہیں روکتے کہ مجھے نہ دیکھ ، چاند بھی منع نہیں کرتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ تصوّف کی دنیا میں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کائنات میں ہر مخلوق دوسری مخلوق سے مخفی رشتہ میں بندھی ہوئی ہے۔اگر مخلوقات کے درمیان چاہے وہ مخلوق زمینی ہو ، چاے وہ مخلوق پانی کی ہو، چاہے وہ مخلوق ہوا کی ہو۔چاہے وہ مخلوق آسمانوں کی دنیا کی مخلوق ہو ۔ اگر مخفی رشتہ میں جڑی ہوئی نہ ہوتی تو ہر آسمانی نظارہ دیکھنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا ۔
یہی مخفی رشتہ کائنا ت کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ اور بڑے سے بڑے کرّہ کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
اس علم سے صوفی کے اوپر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تمام کائنا ت ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔اگر کائنات کے مختلف اجسام زمین ، چاند ، سورج ستارے ، فرشتے ، جنات مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقینا ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہوجاتا ۔ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا نہ پسند کرتی ۔
قرآن پاک نے ایسی مالک ہستی کا تعارف اللہ کے نام سے کروایا ہے۔
’’الحمد اللہ ربّ العالمین ‘‘
سب تعریفیں کائنات کی مالک ایک ہستی کے لئے مخصوص ہیں اس ہستی کا نام اللہ ہے ۔اللہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور بحیثیت رب کے مخلوقات کی ضروریات کی کفالت کرتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 54 تا 55
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔