حُقوقِ انسانی اور دیگر مخلوق کے حُقوق
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20119
ایک مرید نے مراد سے پوچھا :
اللہ سے دوستی کس طرح کی جائے؟
مراد نے مرید سے پوچھا:
تم کسی سے دوستی کرنا چاہو تو کیا کروگے؟
مرید نے عرض کیا:
اس کے ساتھ حسنِ اخلاق کا برتاؤ کرینگے ، اسکی خاطر مدارات کریں گے اس کا خیال رکھیں گے۔
مراد نے کہا :
اگر یہ باتیں نہیں کروگے یا تمہیں اس کے مواقع نہیں ملیں گے پھر کیا ہوگا؟
مرید نے عرض کیا:
ہوسکتا ہے کہ دوستی ختم ہوجائے۔
مراد نے فرمایا:
دوستی اس وقت پختہ ہوتی ہے جب آدمی دوست کی دلچسپیوں کو قبول کرلے۔ اگر تم نمازی کے پکے دوست بننا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ نمازپڑھنا شروع کردو ……جو ا کھیلنے والے کا دوست جواری ہوتا ہے اور نشہ کرنے والے کا دوست اگر اس کے ساتھ نشہ نہیں کرتا تو آپس میں دوستی نہیں ہوتی۔
مراد نے مرید سے سوال کیا کہ :
اللہ تعالیٰ کیا کرتے ہیں؟
مرید نے اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ادھر ادھر کی بہت ساری باتیں کیں۔
مراد نے قطع کلام کر کے فرمایا کہ:
مختصر بات یہ ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے ۔ اللہ سے اگر دوستی کرنی ہے تو مخلوق کی خدمت کرو۔
مراد نے مزید تشریح فرمائی:
کیا تم نے بکر ی دیکھی ہے؟
مرید نے عرض کیا:
جی ہاں دیکھی ہے۔
پوچھا: بکری کیا کرتی ہے؟
مرید نے عرض کیا:
بکری دودھ دیتی ہے ۔ لوگ اسکا گوشت کھاتے ہیں۔ اسکی کھال انسانوں کے کام آتی ہے۔
مراد نے فرمایا:اس کا مطلب یہ ہوا کہ بکری انسان کی خدمت میں مصروف ہے۔
مراد نے پھر پوچھا:
زمین کی کیا ڈیوٹی ہے؟
مرید نے عرض کیا:
زمین پر کھیتیاں لہلہاتی ہیں ۔ زمین درخت اگاتی ہے۔ درختوں پر پھل لگتے ہیں ۔ زمین انسان کو خوش کرنے کے لئے پھولوں میں رنگ آمیزی کرتی ہے۔
مراد نے سوال کیا:
بکری اور زمین کا کیا رشتہ ہے؟
مرید نے عرض کیا:
بکری زمین پر گھاس چرتی ہے درختوں کے پتے کھاتی ہے۔
مراد نے ارشاد فرمایا کہ:
کائناتی سسٹم یہ ہے کہ ہر شے دوسرے کی خدمت کرنے میں مصروف ہے جب غیر
اشرف مخلوق اللہ کی مخلوق کی خدمت کر رہی ہے تو انسان کا بھی فرض ہے کہ مخلوقات کی خدمت کرے۔
جب سالک اس رمز کو سمجھ لیتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو اسے اپنے باپ آدم ؑ کا ورثہ منتقل ہوجاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام پہلے صوفی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے باطنی علوم سکھائے ہیں۔ باطنی علوم کا دوسرا نام تصوّف ہے اور یہی علم حضرت آدم علیہ السلام کا ورثہ ہے ۔
آدم سب کے باپ ہیں۔باپ اولاد کی خدمت کرتا ہے ……اولاد کو پالتا پوستا ہے۔آدم کا ہر بیٹا بھی آدم کی اولاد کا باپ ہے ۔ باپ کا یہ فرض ہے کہ اولاد کی خدمت کرے ۔ آدم زاد کوبلا تخصیص مخلوق کی خدمت اس لئے کرنی چاہئے کہ دوسری مخلوقات بھی آدم کی خدمت میں مصروف ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 57 تا 58
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔