حضرت جنید بغدادیؒ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22618
*حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تنہا حج کے لیے گیا۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ جب رات زیادہ ہوجاتی تو طواف کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان لڑکی کو دیکھا۔ وہ طواف کررہی تھی اور اشعار پڑھ رہی تھی۔
’’میں نے عشق کو بہت چھپایا مگر وہ نہیں چھپ سکا۔اب تو کھلم کھلا میرے پاس ڈیرہ ڈال دیا ہے۔جب شوق بڑھتا ہے تو اس کے ذکر سے دل بے چین ہوجاتا ہے۔اور اگر میں اپنے محبوب سے قریب ہونا چاہتی ہوں تو وہ مجھ سے قریب ہو جاتا ہے۔اور وہ ظاہر ہوتا ہے تو میں اس میں فنا ہوجاتی ہوں اور پھر اسی کے لیے زندہ ہوجاتی ہوں۔اور وہ مجھے کامیاب کرتا ہے حتیٰ کہ میں مست و بے خود ہوجاتی ہوں۔‘‘
میں نے اس سے کہا توایسی بابرکت جگہ ایسے شعر پڑھتی ہے۔ وہ لڑکی میری طرف متوجہ
ہوئی اور بولی جنید! اس کے عشق میں بھاگی پھر رہی ہوں اور اسی کی محبت نے مجھے حیران اور پریشان کر رکھا ہے۔اسکے بعد لڑکی نے پوچھا جنید! تم اﷲ کا طواف کرتے ہو یا بیت اﷲ کا۔ میں نے جواب دیا میں تو بیت اﷲ کا طواف کرتا ہوں۔
آسمان کی طرف منہ کرکے اس نے کہا سبحان اﷲ آپ کی بھی کیا شان ہے پتھر کی مانند بے شعور مخلوق پتھروں کا طواف کرتی ہے اور شعور والے، گھر والے کا طواف کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عشق و محبت میں سچے ہوتے تو ان کی اپنی صفات غائب ہوجاتیں۔ اور اﷲ کی صفات ان میں بیدار ہوجاتیں۔حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں کہ فرطِ غم سے میں غش کھا کر گر گیا جب ہوش آیا تو وہ خاتون جاچکی تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 169 تا 169
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔