حضرت ابوا لحسن سراجؒ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22606
حضرت ابو الحسن سراجؒ کہتے ہیں کہ میں طواف کررہا تھا کہ میری نظر ایک حسین عورت پر پڑی۔ جس کا چہرہ چاند کی طرح تھا۔ میں نے کہا : سبحان اﷲ ایسی حسین عورت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ معلوم ہوتا ہے اس کو کوئی غم نہیں ہے ۔ اس نے میری بات سن کر کہا: واﷲ! غموں میں جکڑی ہوئی ہوں۔ میرا دل فکروں اور آفتوں میں ہے۔ کوئی میرا ہمدرد نہیں ہے۔
میرے خاوند نے قربانی میں ایک بکری ذبح کی۔ میرے دو بچے کھیل رہے تھے اور ایک دودھ پیتا بچہ میری گود میں تھا۔ میں گوشت پکانے کے لیے اٹھی تو ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا میں تمہیں بتاؤں کہ ابا نے بکری کیسے ذبح کی تھی؟ اس نے دوسرے بھائی کو بکری کی طرح ذبح کردیا پھر ڈر کر بھاگ گیا اور ایک پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں ایک بھیڑیے نے اسے کھا لیا۔
باپ اسکی تلاش میں نکلا اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے پیاس کی شدت سے مر گیا۔ میں دودھ پیتے بچے کو چھوڑ کر دروازے تک گئی کہ شاید خاوند کا کچھ پتہ مل جائے۔ تو وہ بچہ چولہے کے پاس چلا گیا۔ چولہے پرہانڈی پک رہی تھی۔ بچے نے ہانڈی پر ہاتھ مارا۔ اسکا پورا جسم جل گیا۔ میری بڑی لڑکی جو خاوند کے گھر تھی اسکو جب اس سارے قصے کی خبر ملی تو وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گری اور مرگئی۔ مقدر نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔
میں نے پوچھا اتنی زیادہ مصیبتوں کے بعد تجھے صبر کیسے آیا؟ اس خوبصورت خاتون نے تین شعر پڑھے۔
میں نے صبر کیا کیونکہ صبر بہترین اعتماد ہے اس لیے بے صبری سے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے ایسی مصیبتوں پر صبر کیاکہ اگر وہ پہاڑوں پرگریں تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ میں نے اپنے آنسوؤں کو پی لیا اور میر ی آنکھیں خشک ہوگئیں اب آنسو میرے دل پر گرتے ہیں۔ صبر کے ان آنسوؤں نے میرے دل کو مجلا کر دیا ہے اور اب اﷲ میرے ساتھ ہے اس نے مجھے خوف اور غم سے آزاد کردیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 167 تا 168
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔