بہاؤ الدین زکریا ملتانی
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22748
حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا قریشی تھے۔ ان کے جد امجد کمال الدین علی شاہ تھے۔ کمال الدین علی شاہ مکہ معظمہ سے خوارزم آئے۔ اور مکہ معظمہ سے رخصت ہو کر ملتان میں سکونت اختیار کی۔ کمال الدین علی شاہ کے بیٹے کا نام وجہیہ الدین محمد تھا۔ وجہیہ الدین محمد کی شادی مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی سے ہوئی۔ شیخ بہاؤ الدین زکریاؒ مولانا وجہیہ الدین کے بیٹے ہیں۔
بہاؤ الدین زکریاؒ۱۸ سال کی عمر میں حج کے لئے تشریف لے گئے۔ مکہ سے مدینہ منورہ چلے گئے۔ شیخ بہاوٗالدین زکریا۲۱ سال کے ہوئے تو والد صاحب کا ا نتقال ہو گیا اس کے بعدآپ نے قرآن حفظ کیااور خراسا ن چلے گئے۔سات سال تک علمائے ظاہر اور علمائے باطن سے اکتساب فیض کیا۔ شب و روز جوار رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم میں ریاضت و مجاہدہ اور مراقبہ میں مشغول رہے۔ مدینہ منورہ کی نورانی فضاؤں سے معمور ہوکر بیت المقدس پہنچے اور وہاں سے بغداد شریف آ گئے بغدادمیں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروری کی خدمت میں ایک عرصہ حاضر باش رہے اذکار و اسباق میں استقامت اور دلجمعی کے ساتھ مشغول رہے۔
*مرشد کریم نے خرقہ خلافت عطا فرمایا۔شجرہ طریقت شیخ شہاب الدین سہروری سے شروع ہو کرخواجہ حبیب عجمی۔ حضرت امام حسن۔ حضرت امام علی اور سرورکائنات حضور علیہ ا لصلوۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔
مرشد کریم کے حکم سے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ملتان کے لیے عازم سفر ہوئے ان کے ساتھ پیر بھائی شیخ جلال الدین تبریزی بھی تھے۔ دونوں بزرگ بغداد پہنچے تو شیخ جلال الدین تبریزی
* محاسن صوفیاء
حضرت شیخ فرید الدین عطار ؒ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے، فرید الدین عطار ؒ نے پوچھا کہ بغداد مین کون سا درویش مشغول بحق ہے۔ جلال الدین خاموش رہے۔ جب یہ بات بہاؤ الدین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے شیخ جلال الدین سے کہا تم نے اپنے مرشد کا نام کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ شیخ فرید الدین کی عظمت کا مرے دل پر اتنا اثر ہو ا کہ میں شیخ شہاب الدین سہروردی کو بھول گیا۔ یہ سنکر شیخ بہاؤالدین کو بہت ملال ہوا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 189 تا 190
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔