اطلاعات کا علم
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26174
دنیا میں جو کچھ موجود ہے یا ہونے والا ہے یا گزر چکا ہے وہ سب خیالات کے اوپر رواں دواں ہے۔اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی ہے تووہ چیز ہمارے لئے موجود ہے اور اگر ہمیں اپنے اندر سے کسی چیز کے بارے میں اطلاع نہیں ملتی یا کسی چیز کے بارے میں خیال نہیں آتا تو وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔جب کوئی آدمی مصور بننا چاہتا ہے تو پہلے اس کے ذہن میں خیال آتاہے کہ مجھے تصویر بنانی ہے۔ کوئی آدمی مشین اُس وقت بناتا ہے جب اُسے مشین بنانے کا خیال آئے۔ اگر خیال نہ آئے تو کوئی آدمی انجینئر، ڈاکٹر، ٹیچر وغیرہ نہیں بن سکتا۔
علیٰ ہذٰا لقیاس دنیا کے ہر علم کی یہی نوعیت ہے۔پہلے علم کے بارے میں ہمارے اندر خیال پیدا ہوتا ہے اور ہم اس خیال کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور علم ہمارے ذوق و شوق کے مطابق ہمارے اندر کام کرنے والی مخصوص صلاحیت کو متحرک کردیتا ہے۔استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد کے اندر موجود صلاحیت کو بیدار کرنے میں معاون بن جاتا ہے۔جس طرح تمام علوم و فنون کی صلاحیتیں انسان کے اندر موجود ہیں اسی طرح تصوف یا’’ روحانی علوم‘‘ سیکھنے کی صلاحیت بھی انسان کے اندر موجود ہے۔جب آدمی تصویر بنانا سیکھ لیتا ہے تو اس کا نام مصور ہوجاتاہے اور جب آدمی فرنیچر بنانے میں ماہر ہوجاتا ہے تو اس کا نام بڑھئی رکھ دیا جاتا ہے۔اگرکوئی آدمی سائنسی اعتبار سے کوئی چیز ایجاد کرلیتا ہے تو وہ سائنسدان کہلاتاہے۔ روحانی استاد کی مدد سے شاگرد اپنے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار کرلیتا ہے تو اس کا نام روحانی انسان ہوجاتاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 266 تا 266
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔