آواز کی فریکوئنسی
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22155
آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطہ کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔ آواز کی بدولت ہم بہت سی چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سی آوازیں ایسی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے ماوراء ہیں۔
پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حرفت تحقیق و تلاش کیلئے الٹراساؤنڈ ویوز کا استعمال اب عام ہوگیا ہے۔صدائے بازگشت کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی مختلف حالتوں کے درمیان امتیاز کرسکتی ہیں۔
انسان کی سماعت کا دائرہ، بیس ہرٹز(20 Hertz) سے بیس ہزار ہرٹز فریکوئنسی تک محدود ہے۔ جبکہ ورائے صوت موجوں کی فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹز (Hertz) سے دو کروڑ ہرٹز (Hertz) تک ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہمارے کان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے۔
موجوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ جن میں ذرات سکڑتے ہیں اور پھیلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں، موجوں کی اقسام کی تقسیم فریکوئنسی اور طول موج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
موج مخصوص فاصلہ کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کاطول موج کہلاتا ہے طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے، دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر(Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل گزرجاتے ہیں وہ موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے۔ طول موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طول موج کم ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 133 تا 134
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔