زندگی میں سانس کا عمل دخل
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9413
ماورائی علوم سیکھنے کیلئے مضبوط اَعصاب اور طاقتور دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اَعصاب میں لچک پیدا کر نے، دماغ کو متحرّک رکھنے اور قوّتِ کارکردگی بڑھانے کیلئے سانس کی مشقیں بےحد مفید اور کارآمد ہیں۔ قلندر شعور کا مسافر جب سانس کی مشقوں کا کنٹرول حاصِل کرلیتا ہے تو دماغ کے اندر ریشوں اور خلیوں کی حرکت اور عمَل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِنر (Inner) میں سانس روکنے سے دماغ کے خلیا ت چارج ہو جاتے ہیں جو انسان کی خفیہ صلاحیّتوں کو بیدار ہونے، اُبھرنے اور پھلنے پھولنے کے بہترین مواقع فرا ہم کرتے ہیں۔
ماہرینِ روحانیت نے سائنسی مشقوں کے قاعدے اور طریقے بنا ئے ہیں۔ اگر اُن طریقوں پر عمَل کیا جائے تو بہت سارے روحانی اور جسمانی فوائد حاصِل ہوتے ہیں۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ زندگی کا دارومدار سانس پر ہے۔ انسانی زندگی میں وہم، خیال، تصوّر، اِدراک، احساس سب اس وقت تک مَوجود ہیں جب تک سانس کا سلسلہ جاری ہے۔ سانس کے ذریعے ہی آدمی کے اندر صحت بخش لہریں منتقل ہوتی ہیں اور سانس کے ذریعے ہی آدمی فضا میں پھیلی ہوئی کثافت اور دھواں گرد و غبار سے بیمار ہو جاتا ہے۔ صاف اور کھلی فضا میں بیٹھ کر سانس اندر لیتے وقت اگر یہ تصوّر کیا جائے کہ فضا میں سے صحت اور توانائی کی لہریں میرے اندر جا رہی ہیں اور جسم میں جذب ہو رہی ہیں تو واقعتاً ایسا ہی ہو جاتاہے۔ سانس کی مشقیں دراصل دَورانِ خون کو تیز کرتی ہیں۔ دماغی صلاحیّتوں کو اُجاگر کرتی ہیں، بَراَنگیختہ جذبات کو ٹھنڈا کرتی ہیں اور کسی عمدہ مُصفّیٰ خون دوا کی طرح خون کو صاف کرتی ہیں۔ سانس کی مشقوں سے آدمی تقریباً اپنی ہر بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔ مثلاً نِسیان کا مرض، پیٹ کے جملہ اَمراض، معدے اور آنتوں میں اَلسر، قبض، سنگ رہنی، نزلہ زکام، سر درد، مِرگی اور دوسری قسم کے دماغی دَورے، بنیا ئی کی کمزوری وغیرہ وغیرہ۔ سانس کی مشقوں کو علاج کے قاعدوں کے مطابق اگر پابندیِٔ وقت کے ساتھ انجام دیا جائے تو سینہ، گلے، ناک وغیرہ کے امراض بھی اَز خود ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ساٹھ ستر سال کے بوڑھے لوگ جنہوں نے سانس کی کسی منتخب مشق کو اپنا معمول بنا لیا، ہشاش بشاش اور نوجوانوں کی طرح تر و تازہ رہتے ہیں۔ ان کے اندر انتقالِ خیال (Telepathy) کی ایسی قوّت پیدا ہوجاتی ہے کہ دُور دراز فاصلوں پر اپنے احکامات پہنچا دیتے ہیں۔
میرا اپنا ایک ذاتی واقعہ سنئے۔ قلندر شعور کے بانی قلندر بابا اولیاء ؒ کی نگرانی میں سانس کی مشق کے دَوران ایک روز مجھے یہ خیال آیا کہ جب زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر ہے اور زمین پر مَوجود ہر چیز رَوشنوٹں کے تانے بانے (Aura) میں بند ہے تو پھر کیا ضرورت ہے آدمی آٹا گوندھے، روٹی پکائے اور کھانا کھانے کا تکلف کرے۔ یہ خیال ہر روز سورج طلوع ہونے کے وقت گہرا ہوتا چلا گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 144 تا 145
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔