سائنسی نظریہ
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9377
سائنسدان جس مادّی نظریے کی تشہیر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کا عمَلی مُظاہرہ (Demonstration) نہ ہو اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسدان بہت کچھ جا ننے کے باوُجود یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مادّی خول میں بند ہو کر خود اپنے نظریے کی نفی کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں ایسا غَیب جو آنکھ سے نظر نہ آئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا جبکہ ان کی ساری ترقی کا دارومدار نظر نہ آنے والی رَوشنی پر ہے۔
بانیِٔ قلندر شعور، ابدالِ حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، قلندر بابا اولیاء ؒ فرماتے ہیں:
روحانی اقدار سے متعلّق جتنے علوم ابھی تک زیرِ بحث آئے ہیں ان سب علوم میں کائنات جو مَظاہر میں اہمیت رکھتی ہے وہ بعد کی چیز ہے، پہلے مخفی اور غَیب کو زیرِ غور لایا جاتا ہے اور مخفی اور غَیب ہی کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر مخفی اور غَیب کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے تو مَظاہر کس طرح بنتے ہیں؟ مَظاہر کے بننے اور تخلیق ہونے کے قوانین کیا ہیں؟ یہ ساری باتیں آہستہ آہستہ ذہن میں آنے لگتی ہیں۔ اور فکر اس کو اسی طرح محسوس کرتی ہے جس طرح بہت سی باتیں جو انسان کے تجر بے میں نَو عمری سے ہوش کے زمانے تک آتی رہتی ہیں ان میں ایک خاص طرح کا اِرتباط رہتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو جو غَیب سے متعلّق ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت سے نام دئیے ہیں اور انبیاءؑ نے ان ناموں کا تذکرہ کرکے ان کے اَوصاف کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ قرآن پاک سے پہلے کی کتابیں بھی ان چیزوں پر رَوشنی ڈالتی ہیں لیکن اُن کتابوں میں جستہ جستہ تذکرے ہیں۔ زیادہ تفصیلات قرآن پاک میں ملتی ہیں۔ قرآن پاک کی تفصیلات پر جب غور کیا جاتا ہے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ غَیب مَظاہر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ غَیب کو سمجھنا ضروری ہے۔ مذہب یا دین جس چیز کو کہتے ہیں وہ غَیب ہی کی Base پر منحصر ہے۔ مَظاہر کا تذکرہ مذہب میں ضرور آتا ہے لیکن یہ ثانویت رکھتا ہے، اس کو کسی دَور میں اوّلیت حاصِل نہیں تھی۔ مادّی دنیا اسے کتنی ہی اوّلیت دے، لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اسی طرز پر سوچنے لگی ہے۔ مثلامَوجودہ دَور کے سائنسدان بھی غَیب کو اوّلیت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ کسی چیزکوفرض کرتے ہیں۔ فرض کرنے کے بعد پھر نتائج اخذ کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اور جب نتائج اخذ کرتے ہیں تو وہ ان تمام چیزوں کو حقیقی لازمی اور یقینی قرار دیتے ہیں جیسا کہ بیسویں صدی میں الیکٹران کا کردار زیرِ بحث ہے۔ الیکٹران کے بارے میں سائنسدانوں کی ایک ہی رائے ہے کہ وہ بیک وقت As a Particle اور As a Wave ، Behave کرتا ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ جو چیز محض مفروضہ ہے وہ بیک وقت دو طرز پر عمَل کرے اور اس کے عمَل کو یقینی تسلیم کیا جائے….. وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکٹران کو نہ آج تک دیکھا گیا ہے اور نہ آئندہ اس کو دیکھنے کی امید ہے….. لیکن ساتھ ہی وہ الیکٹران کو اتنی ٹھوس حقیقت تسلیم کرتے ہیں جتنی ٹھوس کوئی حقیقت اب تک نَوعِ انسانی کے ذہن میں آسکی ہے، یا نَوعِ انسانی جس حقیقت سے اب تک رُوشناس ہو سکی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ صرف مفروضہ ان کے ذہن میں ہے اور مفروضہ سے چل کر وہ اس نتیجے پر ایسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جس منزل کو اپنے لئے ایجادات اور بہت زیادہ اہمیت کی اور کامیابی کی منزل قرار دیتے ہیں۔ اس اہم منزل کو وہ نَوعِ انسانی کے عوام سے رُوشناس کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہےکہ جن حقائق کو وہ ایک مرتبہ حقائق کہہ کر پیش کر چکے ہیں، چند سال کے بعدیا زیادہ مدت کے بعد وہ ان حقائق کو ردّ کر دیتے ہیں اور ردّ کرکے ان کی جگہ نئے فارمولے لے آتے ہیں اور ان نئے فارمولوں کو پھر اُن ہی حقائق کا مرتبہ دیتے ہیں جن حقائق کا مرتبہ پہلے وہ ایک حد تک برسہا برس کسی بھی ایک ردّشدہ چیز کو دے چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ غَیب کی دنیا اُن کیلئے اوّلیت رکھتی ہے حالانکہ وہ محض مادّہ پرست ہیں اور خود کو مادّیت کی دنیا کا پرستار کہتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کو بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا غَیب کی دنیا کوئی چیز ہے یا کوئی اوّلیت رکھتی ہے یا اس کے کوئی معنی ہیں یا قابلِ تسلیم ہے یا اس کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس قسم کے تصوّرا ت جن کو مادّیت کہنا چاہئے، اُن کے اِردگرد ہمیشہ جمع رہتے ہیں اور جب کبھی کسی غَیب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک کوئی Demonstration نہ کیا جائے، اُس وقت تک ہم کسی غَیب سے متعارف ہو سکتے ہیں، نہ کسی غَیب سے متعلّق یقین کرنے کو اور یہ سمجھنے کو (کہ غَیب کوئی خبر ہو سکتا ہے) ہم تیار ہیں، یا یہ کہ ہم سائنس کی دنیا میں نظریۂِ غَیب کو یا غَیب کے تذکرے کو کوئی جگہ دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ برا کیف، وہ جس طرح بھی کہتے ہیں یہ تو صرف طرزِ فکر ہے اور طرز گفتگو ہے، لیکن عمَلی دنیا میں اور تفکر کی عمَلی منزل میں وہ اُسی مقام پر ہیں جس مقام پر کہ ایک آدمی غَیب پر یقین کرنے والا اللہ کی ذات کو پیش کرتا ہے اور ان تمام ایجنسیوں کو تسلیم کرتا ہے جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کیا ہے، اور وہ ایجنسیاں جو شرطِ ایمان ہیں اور کسی ایسے شخص پر جو اللہ کو مانتا ہے اپنا تسلّط رکھتی ہیں اور ان تمام ایجنسیوں اور ان تمام ہستیوں کو وہ ایسی زندہ حقیقت اور ایسی ٹھوس معنویّت تسلیم کرتا ہے جیسے کہ مادّہ پرست کسی پتھر کی یا معدنی یا کسی ایسے مَظاہر کے متعلّق چیز کو تسلیم کرتے ہیں جو اُن کے سامنے بطور مشاہدے کے ہمہ وقت مَوجود رہتی ہے اور جس کو یہ چُھوتے، چکھتے، دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جس کے متعلّق وہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں تغیر ہے، اس میں توازن ہے، اس میں ایک امتزاج ہے، اِس میں تأثّر ہے، اس میں قوّت ہے اور جس قسم کی چیزیں وہ مادّیت کی دنیا میں دیکھتے ہیں، ان تمام چیزوں کا وہ اُسی طرح تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر ایک خاص طرز سے ایمان رکھتے ہیں۔ دو سرے الفاظ میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خدا کا پرستارجس طرح غَیب پر ایمان رکھتا ہے بالکل اسی طرح مادّے کا پرستار مادّیت کی دنیاپر یقین رکھتا ہے۔ نہ خدا پرست کو غَیب کی دنیا پر ایمان رکھے بغیر چارہ ہے، نہ مادّیت پرست کو مادّہ پر ایمان لائے بغیر مَرَ ہے۔ دونوں ایک نہ ایک طرز رکھتے ہیں اور ان میں یہ چیز مشترک ہےکہ اس طرز پر اُن کا ایمان اور ایقان ہوتا ہے۔ اسی ایمان اور اِیقان کو یہ زندگی کہتے ہیں۔ اصل میں کہنے کی بات یہ ہے کہ کوئی زندگی بغیر ایمان اور ایقان کے ناممکن ہے، خواہ کسی خدا پرست کی زندگی ہو یا مادّہ پرست کی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 125 تا 128
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔