آٹومیٹک مشین
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9229
پیدائش سے موت تک اور موت کے بعد کی زندگی میں اَعراف، حشر و نشر، حساب و کتاب، جنّت و دوزخ اور اللہ کی تجلّی کا دیدار سب کا سب یقین کے اوپر قائم ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہے، وہ مَوجود ہے اس کے اندر عقل و شعور کام کرتا ہے وہ ایک حد تک با اِختیار ہے اور بڑی حد میں اس کے اوپر غیر اِختیاری کیفیات نازل ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً کوئی آدمی اپنے اِرادے اور اِختیار سے اگر سانس لینا شروع کر دے تو وہ چند منٹ میں ہانپ جائے گا۔ روٹین Routine کی زندگی میں بھوک لگتی ہے۔ وہ کچھ کھا لیتا ہے، پیاس لگتی ہے پانی پی لیتا ہے۔ یہی حال آدمی کے اندر اُس مشین کا ہے جو مسلسل متواتر، ہر لمحہ اور ہر آن چل رہی ہے۔ اس مشین کے کَل پرزے، ذہن، اعضاءِ رئیسہ، دل، پھیپھڑے، گردے، جگر اور آنتوں کی حرکت مسلسل جاری ہے۔ چار اَرب کی آبادی (* اس کتاب کی تحریر کے وقت معلوم انسانی آبادی) میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے اِرادے اور اِختیار سے اپنے اندر نصب کی ہوئی مشین کو چلاتا ہو۔ مشین بالکل غیر اِختیاری طور پر چل رہی ہے۔ اس مشین میں جو ایندھن استعمال ہوتا ہے، اُس پر بھی انسان کی دَسترس نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب مشین بند ہو جاتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت، علم کی بڑی سے بڑی ترقی اسے چلا نہیں سکتی۔ یہ مشین قدرتی نظام کے تحت بتدریج بھی بند ہوتی ہے اور ایک دم بھی بند ہو جاتی ہے۔ بتدریج بند ہونے کا نام بیماری اور مشین کے ایک دم بند ہونے کو ہا رٹ فیلئر (Heart Failure) کہا جاتا ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ بیماریوں کا علاج اِختیاری ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چار اَرب کی آبادی میں ایک انسان بھی ایسا نہیں جو بیمار ہونا یا مَرنا چاہتا ہے۔ اگر زندہ رہنا اِختیاری ہوتا تو دنیا میں کوئی آدمی موت سے ہم آغوش نہیں ہوتا۔ علیٰ ہٰذا القیاس، زندگی کے بنیادی عوامِل اور وہ حر کات جن پر زندگی رواں دواں ہے انسان کیلئے اِختیاری نہیں ہیں۔ اگر ہم بنیاد پر غور کریں تو زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب آدمی پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ پیدائش پر انسان کا کوئی اِختیار نہیں ہے۔ لاکھوں سال کے طویل عرصے میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے اِرادے اور اِختیار سے پیدا ہو گیا ہو۔ پیدا ہونے والی ہر چیز، پیدا ہونے والا ہر فرد ایک وقتِ معیّنہ کیلئے اس دنیا میں آتا ہے اور جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو آدمی ایک سیکنڈ کیلئے بھی اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا، مر جاتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت نہیں ہے، جس میں زیادہ سوچ و بچار اور تفکر کی ضرورت پیش آئے…. ہر لمحہ، ہر آن، ہر منٹ، ہر سیکنڈ یہ صورتِ حال واقع ہو رہی ہے۔ مختصر یہ کہ اللہ اپنی مرضی سے پیدا کرتا ہے اور مختلف صورتوں میں پیدا کرتا ہے۔ قد کاٹھ مختلف ہوتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا گیا ہے کہ کوئی بنیادی طور پر کوتاہ قد آدمی سات فٹ کا بن گیا ہو۔ ایسی بھی دنیا میں کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ سات فٹ کا آدمی گھٹ کر ڈھائی فٹ کا ہو گیا ہو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 73 تا 75
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔