تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=752
سوال: تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور تصورات کی پیچیدگی سے انسان کس طرح پریشان اور بیمار ہو جاتا ہے۔
تصورات کہاں سے آتے ہیں؟
جواب: انسانی زندگی تین دائروں میں تقسیم ہے۔ مادی، ذہنی اور ماورائے، ذہنی مادی دائرے کا طبیعات سے تعلق ہے۔ ذہنی دائرے کا نفسیات سے اور ماورائے ذہنی دائرے مابعد النفسیات یا پیراسائیکلوجی سے متعلق ہیں۔
مابعد النفسیات میں طبیعیات اور نفسیات سے ہٹ کر ان ایجنسیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو کائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اور کائنات کے قوانین عمل کا احاطہ کرتی ہیں۔ علم مابعد النفسیات(روحانیت) اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے فارمولوں سے کہاں تک مانوس ہے۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک ہیں۔
ہمارے لئے ان کی افادیت کیا ہے اور ان سے آگاہی حاصل کرکے کس طرح زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے قائم ہے۔ کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہوتا ہے اور کوئی خیال انتہائی کربناک۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے جیسے ہی خیال کی یہ رو دماغ سے ٹکراتی ہے، حادثات سے متعلق پریشانیاں کڑی در کڑی آدمی اپنے اندر محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہی حال خوشی اور خوش حال زندگی کا ہے۔ جب انسانی تصورات ایسے نقطۂ پر مرکوز ہو جاتے ہیں جس میں شادمانی اور خوش حالی کی تصویریں موجود ہوں تو انسان خوش ہو جاتا ہے۔ خوشی اور غم دونوں تصورات سے وابستہ ہیں اور تصورات خیالات سے جنم لیتے ہیں۔ اب یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ خیالات کیسے بنتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں۔
روحانیت (مابعد النفسیات) کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ انسان تین پرت کا مجموعہ ہے۔ صفات، ذات اور تیسرا پرت ذاتاور صفات میں امتیازی خط کھینچے والی ایجنسی۔ امتیازی خط کھینچے والی ایجنسی کو تخلیط یا جسد خاکی کہتے ہیں۔ جسد خاکی اس پتلے کا نام ہے جس کو عرف عام میں آدمی کہا جاتا ہے۔ ہر پرت کے محسوسات ایک دوسرے سے بالکل الگ اور نمایاں ہیں۔ ذات کا پرت وہ نقش ہے جو وہم اور خیال کو تصور بنا کر ذہن میں منتقل کر دیتا ہے۔ ذہن تصورات کو معانی کا لباس پہنا کر خوشی یا غم کا مفہوم دیتا ہے۔ اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی خوبصورت باغ سے تعلق رکھتی ہوں تو اس کے اندر رنگین روشنیاں، خوشبو کے طوفان اور حسن کے تصورات رونما ہونے لگتے ہیں۔
ذہن میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک نقش باطن جس کے اندر بہت لطیف انوار کا ذخیرہ رہتا ہے۔ دوسرا نقش ظاہر جس کے اندر خود غرضی، ذہنی تعیش، تنگ ظرفی، احساس کمتری یا احساس برتری اور غیر ذمہ داری جیسے کثیف جذبات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔
تصورات میں اگر پیچیدگی اور بناوٹ ہے تو یہ الجھن، اضطراب، بے چینی، ڈر اور خوف کا جامہ پہن لیتے ہیں۔ ان کی زیادتی نقش ظاہر کو نقش باطن سے دور کر دیتی ہے اور یہ دوری بہت سے امراض پیدا کر دیتی ہے۔ مثلاً مرگی، دماغی فتور کا عارضہ، آسیب، خفقان، کینسر، سل اور دق وغیرہ۔
عرف عام میں رگ پٹھوں کی بناوٹ اور ہڈیوں کے ڈھانچہ کو انسان کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ انسان وہ نہیں ہے جس کو قدرت انسان کہتی ہے۔ گوشت پوست، رگ پٹھوں سے مرکب انسان کو ہم اصل انسان کا لباس کہہ سکتے ہیں۔
مثال:
آپ ایک قمیض لیجئے۔ اگر آپ چاہیں کہ قمیض جسم سے الگ بھی حرکت کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ جب تک قمیض جسم کے اوپر ہے جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے اندر بھی حرکت موجود ہے۔ اگر آسینک ہاتھ کے اوپر ہے تو اس کے اندر ہاتھ کی حرکت کے ساتھ حرکت پیدا ہونا لازمی ہے۔ ہاتھ سے الگ آستین میں حرکت پیدا ہونا بعدی از قیاس ہے۔ یہی حال جسم کا بھی ہے۔ اگر جسم کسی دوسرے جسم (روح) کے اوپر موجود ہے تو اس کے اندر حرکت ہے ورنہ کوئی حرکت نہیں ہے۔ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے اندر اپنی کوئی مدافعت باقی نہیں رہتی۔ آپ مرے ہوئے جسم کے ساتھ کچھ بھی کیجئے، جلا دیجئے، قبر میں دفن کر دیجئے، ایک ایک عضو الگ کر دیجئے، جسم کی طرف سے کوئی حرکت، کوئی مدافعت عمل میں نہیں آئے گی۔
بتانا یہ ہے کہ گوشت پوست اور رگ پٹھوں سے بنا ہوا جسم انسان نہیں ہے بلکہ انسان کا لباس ہے۔ جب تک انسان یعنی روح موجود ہے لباس بھی موجود ہے۔ جیسے ہی انسان اس لباس سے قطع تعلق کرتا ہے (جس کو ہم مرنا کہتے ہیں) اس کے اندر کوئی حرکت باقی نہیں رہتی۔
قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو معین مقداروں پر تخلیق کیا ہے۔ بالفاظ دیگر زندگی معین مقداروں پر سرگرم عمل ہے۔ یہ مقداریں ہی وہم، خیال، تصورات اور احساس بنتی ہیں۔ ان مقداروں میں کمی بیشی یا شکست و ریخت واقع ہو جائے تو زندگی غیر متوازن ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان نت نئی پریشانیوں، الجھنوں اور بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 140
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔