روح کیا ہے
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=746
: روح کیا ہے اس کو تفصیل سے بیان کریں۔
جواب: قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے۔’’اے رسولﷺ! تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘
قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی ہے۔ یہ بولتا، سنتا، سمجھتا، محسوس کرتا انسان بن گیا۔ بات سیدھی اور صاف ہے کہ انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح نے اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کے تمام اعمال و حرکات کو متحرک کیا ہوا ہے۔ ہم روزمرہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی مر جاتا ہے تواس کا پورا جسم موجود ہونے کے باوجود اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
یعنی حرکت تابع ہے، روح کے۔ درحقیقت روح زندگی ہے اور روح کے اوپر ہی تمام اعمال و حرکات کا انحصار ہے۔ روح کی ہر حرکت میں مقداریں کام کرتی ہیں اور یہ معین مقداریں استعمال کر کے روح مختلف حیثیتوں اور رنگ و روپ میں اپنا تعارف پیش کرتی ہے۔ روح جب ان معین مقداروں کے تانے بانے کے ساتھ لباس تیار کرتی ہے۔ جس کو ہم درخت کہتے ہیں۔ تو روح ہمیں درخت کی شکل میں نظر آتی ہے اور روح جب وہ مقداریں پیش کرتی ہے تو بکری میں ہوتی ہیں تو وہ ہمیں بکری نظر آتی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح جتنی نوعیں اور ان نوعوں کی شکل وصورت ہم دیکھتے ہیں یا ایسی نوع جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔ وہ روح کے لباس کی ہر لمحہ بدلتی ہوئی تصویریں ہیں۔ روح جب ملاء اعلیٰ کے لباس میں خود کو پیش کرتی ہے تو ملاء اعلیٰ ہے۔ ملاء اعلیٰ میں گروہ جبرئیلؑ ، میکائیلؑ اور اسرافیلؑ شامل ہیں۔ روح ہی کی تخلیق حاملان عرش، ملائکہ سماوی، ملائکہ ارضی اور ایسے سیارے ہیں جن میں اربوں کھربوں انسان، جنات اور دوسری مخلوق آباد ہیں۔
روح ہمیشہ پردے میں رہتی ہے اور خود کو کسی نہ کسی لباس یا حجاب میں ظاہر کرتی ہے۔ روح کے بارے میں جتنے تذکرے ملتے ہیں اور جن لوگوں نے روح کی تعریف بیان کی ہے انہوں نے روح کو کسی نہ کسی شکل وصورت میں بیان کیا ہے مثلاً روشنی، نور وغیرہ وغیرہ۔ روشنی بھی ایک شکل ہے اور نور کی بھی ایک تعریف ہے۔ فی الواقع روح کیا ہے، اس کی ماہیت کیا ہے اس کو واضح طور پر بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ (Vocabulary) نہیں ہیں۔
روح جس نوع کا لباس اختیار کرتی ہے اس نوع کو زندہ رہنے کے لئے تمام ضروری حواس بخشتی ہے۔ یہ حواس ہی ہیں جو الگ الگ مقدار رکھتے ہیں۔ زمان و مکان کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ حواس ذیلی تحقیق ہیں یعنی روح کی تخلیق۔ اس طرح جیسے انسان ہوائی جہاز بناتا ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ انسان ہوائی جہاز کا خالق ہے حالانکہ ہوائی جہاز کی تخلیق میں درجہ بدرجہ تمام تحریکات موجود ہیں جو روح سے انسان کو منتقل ہوئی ہیں۔
جب کوئی انسان تخلیقی مقداروں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس حد تک آزاد ہو جاتا ہے کہ روح کا بنایا ہوا لباس یا اپنے لئے روح کے متعین کردہ میڈیم کی نفی ہو جاتی ہے تو وہ ایک حد تک جتنا اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں روح سے وقوف حاصل کر لیتا ہے اور یہ وقوف انسان کو تمام فاصلوں اور تمام حد بندیوں سے گزار کر دیتا ہے۔
اس دنیا کی تمام چیزیں جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یا جن چیزوں کو ہم دیکھ رہے ہیں، بشمول سورج، چاند، ستارے ہم روح کی معرفت دیکھ رہے ہیں۔ یعنی روح کی اطلاعات یا روح کا علم مختلف شکل و صورت اور مختلف لباسوں میں نظر آ رہا ہے۔ جس طرح انسان کے اندر روح کام کر رہی ہے یا جس طرح روح نے انسان کو لباس بنا کر خود کے سامنے اور دوسری نوعوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسی طرح چاند اور سورج بھی ایک علم ہے جس کی اطلاع متواتر اور مسلسل روح ہمیں بہم پہنچا رہی ہے۔ ایک اندھا آدمی جو چاند، سورج اور ستاروں کو نہیں دیکھ سکتا مگر چاند کی روشنی، ستاروں کی ٹھنڈک اور سورج کی تپش سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جیسے آنکھ رکھنے والا کوئی انسان متاثر ہوتا ہے۔ بہت زیادہ سوچنے کی بات ہے کہ اندھے کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ یہ دھوپ ہے لیکن وہ دھوپ کی تپش محسوس کرتا ہے اور اسے یہ علم ہے کہ یہ دھوپ ہے ایک آدمی پانی کو دیکھتا ہے۔ اس نے ابھی پانی میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ اس کا ہاتھ ابھی بھیگا بھی نہیں، ہاتھ بھیگنے سے دماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے لیکن وہ پانی کو دیکھ کر پانی کہہ دیتا ہے۔ ایک آدمی کی آنکھیں بند ہیں، کوئی شخص اس کے ہاتھ پر لوہے کو ٹکڑا رکھ دیتا ہے۔ وہ آدمی دیکھ نہیں رہا کہ ان کے ہاتھ پر لوہا رکھا ہوا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ لوہے کا ٹکڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پانی میں ہاتھ بھیگا ہے کو دیکھا نہیں تو اس نے یہ کیسے کہہ دیا کہ یہ پانی ہے، یہ لوہا ہے۔ زبان سے ادا نہ ہونے کے باوجود محبت بھری نظروں کے اثرات خوش کن ہوتے ہیں اور غضبناک نظریں ہراساں کر دیتی ہیں۔ گونگے بہرے آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ ان اشاروں کو جو وہ الفاظ کی جگہ استعمال کرتے ہیں آپس میں اس طرح سمجھتے ہیں جس طرح ہم کسی بات کو الفاظ میں کہتے اور سمجھتے ہیں۔
اب ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ روح کے لئے الفاظ اس وقت اہمیت رکھتے ہیں جب وہ خیال کو الفاظ کے اندر بند کر کے اس کی ایک شکل وصورت بنا دے یا خیالات کو لباس پہنا دے۔ اگر وہ علم کو الفاظ کے جامے سے آزاد رکھے تب بھی ہم مفہوم سمجھنے پر اسی طرح قدرت رکھتے ہیں جس طرح لفظ اور آواز سن کر سمجھتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 102 تا 105
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔