علمِ حقیقت کیا ہے
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=744
سوال: علم حقیقت کیا ہے؟
جواب: جب ہم علم کی ہیئت، اصلیت اور حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ کہے بگیر کوئی چارہ نہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل وصورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔ جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
جاننے کی تین طرزیں ہیں۔ ایک جاننا یہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی اطلاع فراہم کی جائے اور ہم اس اطلاع کو یقین کے درجے میں قبول کر لیں۔ علم کی دوسری قسم یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور علم کی تیسری قسم یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی چیز کے اندرصفات کو نہ صرف یہ کہ محسوس کر لیں بلکہ اس کا باطنی آنکھ سے مشاہدہ بھی کر لیں۔
اس علم کو روحانی سائنس دانوں نے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ علم الیقین
۲۔ عین الیقین
۳۔ حق الیقین
علم الیقین یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اطلاع ملی کہ سائنس دانوں نے ایک ایسا ایٹم بم ایجاد کیا ہے جو ایک لمحہ میں لاکھوں جانیں ہلاک کر سکتا ہے۔ حالانکہ ہم نے ایٹم بم دیکھا نہیں ہے لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ایٹم بم موجود ہے۔ علم کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اطلاع ملی کہ ایک ایسی مشین یجاد ہوئی ہے کہ ہزاروں میل دور تصویریں اس مشین کی مدد سے اسکرین پر نمودار ہو کر نظر آتی ہیں۔ چونکہ ہم ہزاروں میل کے فاصلے سے چلی ہوئی تصویریں ٹی وی پر منعکس دیکھ لیتے ہیں لہٰذا اس علم کا نام عین الیقین ہو گا۔ ہمیں یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ کائنات کی بنیاد اور کائنات کی بساط میں جو کچھ موجود ہے وہ دراصل روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ چونکہ وہ روشنیاں ہمارے سامنے نہیں ہیں اور نہ ہی ان روشنیوں کی ماہیت سے ہم واقف ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ ہمیں حق الیقین حاصل نہیں ہے۔ اسے ہم مختصر طریقہ سے اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کسی نے کہا آگ جل رہی ہے۔ ہم نے اس کے کہنے پر یقین کر لیا کہ وہاں آگ ہے۔ اسے علم الیقین کہیں گے۔ جب ہم آگ کے قریب گئے اور اسے دیکھ لیا تو ہمیں عین الیقین حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نے آگ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تپش محسوس کی۔ اس تجربے کا نام حق الیقین ہے۔
روحانی انسان جب کسی علم کا تذکرہ کرتا ہے یا کائنات میں موجود کسی شےکا تجزیہ کرتا ہے تو اس کے سامنے علم کے یہ تینوں درجے ہوتے ہیں۔ روحانی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کو اگر کوئی چیز دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہے تو وہ علم ہے، ایسا علم جو اللہ تعالیٰ نے آدم کے لئے مخصوص کر دیا ہے اور کسی دوسری نوع کو یہ علم عطا نہیں کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے آدم کو نیابت اور علوم کا تذکرہ کیا ہے اس آیت میں تفکر کرنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علوم فرشتوں کو بھی حاصل ہیں اور علوم آدم کو بھی حاصل ہیں۔ لیکن آدم کو وہ مخصوص علوم حاصل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھی نہیں سکھائے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم آپ نے ہمیں عطا کر دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کا شرف دراصل اس کا علم ہے اور یہ وہ علم ہے جو دوسری مخلوقات کو حاصل نہیں ہے۔
ایک چڑیا زندگی گزارنے کے سارے تقاضے رکھتی ہے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کے علم سے بھی باخبر ہے لیکن وہ ہوائی جہاز نہیں بنا سکتی، ایٹم بم نہیں بنا سکتی، ریڈیو یا ٹی وی نہیں ایجاد کر سکتی اور آدمی یہ تمام چیزیں بنا لیتا ہے اور اس کے علاوہ نئی نئی اختراعات کرتا رہتا ہے۔ اس علم کو ہم وہ علم نہیں کہتے جو علم اللہ تعالیٰ نے بطور خاص آدم کے لئے مخصوص کیا ہے۔ اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل سے ہے یا یہ باالفاظ دیگر عقل نئی نئی ایجادات تخلیق کرتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی ٹی وی بنا لیتا ہے اور چڑیا ٹی وی نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح چڑیا آسمان کی وسعتوں میں اڑتی ہے جب کہ آدمی اڑ نہیں سکتا۔ آدم زاد میں بھی سب لوگ ایسے عاقل، بالغ اور باشعور نہیں ہوتے کہ جن سے ایجادات ظہور میں آتی ہوں۔ عقل کی کمی یا زیادتی کی بنیاد پر اختراعات کا وجود قائم ہے۔ لیکن ایک علم ایسا ہے جو عقل کی حدود اور دائرے سے باہر ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک بندہ چڑیا کی طرح اڑ سکتا ہے۔ اولیائے کرام کے ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں کہ انہوں نے فضا میں پرواز کی ہے۔ ہزاروں میل دور کی چیز کو بغیر کسی دوربین کے دیکھ لیا ہے، لاکھوں سال پہلے کی آوازوں کو سنا ہے، سمجھا ہے اور یہ سب کچھ ظاہری وسائل کے بغیر ہوا ہے۔ عقل سے جو علم سیکھا جاتا ہے اس کا نام علم حصولی ہے اور جو علم وجدان سے حاصل ہوتا ہے اس کا نام علم حضوری ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 94 تا 97
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔