قبر کے اندر
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26683
قبر کے اندر اترا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔نہ وہاں میت تھی نہ ہنڈی۔ ایک طرف دروازہ نظر آرہا تھا ہمت کرکے دروازے کے اندر داخل ہوا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی۔چاروں طرف باغات کا سلسلہ پھیلا ہواتھا اور ہرے بھرے پھل دار درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔باغ میں ایک طرف عالی شان عمارت بنی ہوئی تھی۔عمارت کے اندر قدم رکھا تو ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑی۔وہ شاہانہ لباس پہنے بناؤ سنگھار کئے بیٹھی تھی ۔ارد گرد خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔عورت نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ تم نے مجھے نہیں پہچانا ۔میں وہی ہوں جس نے تمہیں دس روپے دئے تھے۔اﷲ تعالیٰ کو میرا یہ عمل پسند آیا اور اس عمل کو قبول فرماکر مجھے بخش دیا اور بھر پور نعمتوں سے نواز دیا۔یہ تمہاری ہنڈی ہے جو قبر کے اندر گرگئی تھی۔ ہنڈی لو اور یہاں سے فوراََ چلے جاؤ۔
میں نے کہا میں یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سیر کرنا چاہتا ہوں ۔حسین و جمیل عورت نے جواب دیا کہ تم قیامت تک بھی گھومتے پھرتے رہو تو یہاں کی سیر نہیں کرسکوگے۔فوراََ واپس چلے جاؤ۔تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا اس عرصے میں کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہوگی۔میں نے اس کی ہدایات پر عمل کیا اور قبر سے نکل آیا۔ باہر آکر دیکھا کہ وہاں سرائے تھی اور نہ ہی پرانی آبادی تھی ۔چاروں طرف شہر پھیلا ہوا تھا۔کچھ لوگوں سے سرائے کے بارے میں پوچھا تو سب نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔بعض لوگوں نے مجھے مخبوط الحواس قرار دیا۔
آخر کار ایک آدمی نے کہا میں تمہیں ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں ۔وہ بہت عمر رسیدہ ہیں شاید وہ کچھ بتاسکیں اس بزرگ نے سارا حال سنا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے دادا بتایا کرتے تھے کہ کسی زمانے میں یہاں ایک سرائے تھی ۔سرائے میں ایک امیر آکر ٹھہرا تھا اور ایک رات وہ پر اسرار طور پر غائب ہوگیا۔پھر اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ زمین نگل گئی یا آسمان نے اٹھا لیا ۔میں نے کہا میں ہی وہ امیر ہوں جو سرائے سے غائب ہو اتھا ۔یہ سن کر وہ بزرگ اور حاضرین محفل حیران اور ششدررہ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے‘‘۔
امیر یہ واقعہ سنا کر خاموش ہوگیا اور پھر شاہ عبدالعزیز ؒ سے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں میں کیا کروں ؟ کہاں جاؤں؟ میرا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانا ۔دوسرے یہ کہ اس واقعے نے مجھے مفلوج کردیا ہے۔شاہ صاحبؒ نے فرمایا !تم نے جو کچھ دیکھا ہے صحیح ہے اس عالم اور اس عالم کے وقت کے پیمانے الگ الگ ہیں۔شاہ صاحب ؒ نے فرمایا ’’ اب تم بیت اﷲ شریف چلے جاؤ اور باقی زندگی یاد الٰہی میں گزار دو۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 337 تا 338
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔