عجیب و غریب سرگزشت
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26677
بر صغیر پاک وہند کے معروف صاحب کمال ایک صوفی بزرگ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی ؒ نے مندجہ ذیل واقعہ بیان کیا ہے جوٹائم اور اسپیس کے بارے میں نہایت حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے۔
*ایک شخص شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا لباس کے اعتبار سے وہ شاہی عہدے دار معلوم ہوتا تھا۔اس نے شاہؒ صاحب سے کہا !حضرت میری سرگزشت اتنی عجیب و غریب ہے کہ کوئی اعتبار نہیں کرتا ۔خود میری عقل بھی کام نہیں کرتی ۔حیران ہوں کہ کیا کہوں ،کس سے کہوں ،کیا کروں اور کہاں جاؤں ؟ اب تھک ہار کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔
اس شخص نے اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے کہا:
میں لکھنؤ میں رہتا تھا برسر ِ روزگار تھا ۔حالات اچھے گزررہے تھے ۔قسمت نے پلٹا کھایا۔ معاشی حالات خراب ہوتے چلے گئے زیادہ وقت بیکاری میں گزرنے لگا۔میں نے سوچا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے بہتر ہے کہ کسی دوسرے شہر میں حصولِ معاش کی کوشش کی جائے ۔تھوڑا سا زادِ راہ ساتھ لیا اور اودے پور کی طرف روانہ ہوگیا۔راستے میں رواڑی کے مقام پر قیام کیا اس زمانے میں وہ جگہ ویران تھی صرف ایک سرائے آباد تھی۔سرائے میں کچھ کسبیاں رہتی تھیں ۔میں سرائے میں متفکر بیٹھا تھا۔ پیسے بھی ختم ہوگئے تھے۔ایک کسبی آئی کہنے لگی میاں کس فکر میں بیٹھے ہو کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ میں نے کہا ابھی سفر کی تھکان ہے۔ذرا سستا لوں تھکن دور ہونے پر کھانا کھاؤں گا۔یہ سن کر وہ چلی گئی ۔پھر کچھ دیر بعد آئی اور وہی سوال کیا۔میں نے پھر وہی جواب دیا اور وہ چلی گئی۔تیسری دفعہ آکر پوچھا تو میں نے سب کچھ بتادیا کہ میرے پاس جو کچھ تھا خرچ ہوچکا ہے اب ہتھیار اور گھوڑا بیچنے کی سوچ رہا ہوں ۔وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں گئی اور دس روپے لاکر مجھے دیدئیے ۔
میں نے جب روپے لینے میں پس و پیش کیا تو اس نے کہا میں نے یہ روپے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے ہیں،تکلف کی ضرورت نہیں ،یہ روپے میں آپ کو قرضِ حسنہ دے رہی ہوں
* تذکرۂ غوثیہ
جب حالات درست ہوجائیں تو واپس کر دینا۔
میں نے روپے لے لئے اور خرچ کرتا ہوا اودے پور پہنچا مجھے اچھی ملازمت مل گئی۔ وہاں اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حالات اچھے ہوگئے۔
گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوان ہوگیا ہے ،سسرال والے شادی پر اصرار کررہے ہیں،جلد سے جلد آکر اس فرض سے سبکدوش ہوجایئے۔
رخصت منظور ہونے پر میں اپنے گھر روانہ ہوگیا۔رواڑی پہنچا تو پرانے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔سرائے میں جاکر کسبی کے متعلق معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور کچھ لمحوں کی مہمان ہے ۔جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی ،دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح پرواز کرگئی ۔ میں نے کفن دفن کا سامان کیا،اسے خود قبر میں اتارا اور سرائے میں واپس آکر سوگیا ۔آدھی رات کے وقت پیسوں کا خیال آیا۔دیکھا تو جیب میں رکھی ہوئی پانچ ہزار کی ہنڈی غائب تھی تلاش کیا مگر نہیں ملی خیال آیا کہ ہو نہ ہو دفن کرتے وقت قبر میں گر گئی ہے۔افتاں و خیزاں قبرستان پہنچا اور ہمت کرکے قبر کو کھول دیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 336 تا 337
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔