دن کیا ہے۔ رات کیا ہے؟
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26611
فرمایا ’’ جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو‘ پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ یہ چیزیں دور پرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں، ان پر بھی نظر ڈالتے جاؤ۔ دن طلوع ہو تا ہے، دن کا طلوع ہو ناکیا شے ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ طلوع ہو نے کا مطلب کیا ہے ہم نہیں جانتے دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے، اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسانی کا یہی تجربہ ہے۔
میاں رگھوراؤ، ذرا سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہو جائے گا؟ دن رات، فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے، اس لئے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ دراصل نگا ہ اور فکر سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولا ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کو ئی چیز ہیں، حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے ۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 328 تا 328
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔