روحانی سائنس
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26607
ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ بابا تاج الدین ناگپوری ؒ خصوصی مسائل میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی اپنی گفتگوکے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کرجاتے تھے جو براہ راست قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہورہی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین من وعن ہر وہ بات اپنے ذہن میں سمجھتے اور محسوس کرتے تھے جو باباتاج الدین ؒ کے ذہن میں ہوتی تھی۔ یہ بات بالکل عام تھی کہ چند آدمیوں کے ذہن میں کوئی بات آئی اور بابا تاج الدینؒ نے اس کا جواب دے دیا۔
*مرہٹہ راجہ رگھور اؤ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتا تھا۔ مہاراجہ مخفی علوم سے مس بھی رکھتا تھا اور اس کے اندر فیضان حاصل کرنے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال کیا۔ ’’بابا صاحب ! ایسی مخلوق جو نظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات، خبرمتواتر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلو ق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں بد روحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلی اور علمی تو جیہات نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ’’ ہم سمجھ گئے ‘‘ تجربات میں جو کچھ زبان زد ہیں‘ وہ انفرادی ہیں ‘ اجتماعی نہیں آپ اس مسئلہ پر کچھ ارشاد فرمائیں ‘‘۔
جس وقت یہ سوال کیا گیاباباتاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی۔ فرمانے لگے۔ ’’ میاں رگھو راؤ ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں ‘ ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔ بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم
* تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری ؒ
کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں ۔ جو کچھ کہتے ہیں‘ قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوے کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 327 تا 328
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔