DIMENSION
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26457
ایک صاحب بولے․․․․․ اسی مضمون پر میرے ذہن میں دو مثالیں آئی ہیں۔
دونوں مسافروں نے بیک زبان کہا․․․․․ ضرور بیان کرو․․․․․
اُس نے کہا․․․․․ جب ہم اخبار پڑھتے ہیں تو ہم آنکھوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم اخبار کو آواز سے پڑھتے ہیں۔ یعنی ہم آنکھوں کی SPACEکو استعمال کرتے ہیں اور جب اخبار پڑھتے ہیں تو بولنے کی SPACE استعمال کرتے ہیں اگر اخبار ہم سے کچھ فاصلے پر ہو تو آنکھوں کی SPACEکو اخبار پر کیڑے مکوڑے نظرآئیں گے اور صحیح نہیں پڑھا جائے گا۔ اگر اخبار اور آدمی کا فاصلہ زیادہ ہوجائے تو حروف کی شکلیں غائب ہوجائیں گی اور اگر چھونے کی صلاحیت سے اخبار دور چلا جائے گا جب کہ چھونا بھی اُسی وقت ممکن ہے جب SPACEہو تو اخبار پر کوئی حرف نظر نہیں آئے گا۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ ہر شئے کا وجود اور ہر وجود میں ڈائمنشن اور ہر ڈائمنشن کا قیام SPACEپر ہے۔
ہم نام کو بھی SPACE ہی کہیں گے۔اس لئے کہ نام SPACE کی شناخت ہے․․․ SPACE․․․․․ جسم․․․․․ڈائمنشن․․․․․ اگر نہیں ہوں گے تو نام نہیں رکھا جائے گا۔ مثلاً ہم تین مسافر ہیں۔ ہمارے تین نام ہیں․․․․․ میرا نام محمود ہے․․․․․ تمہارا نام زید ہے․․․․․ اور میرے تیسرے بھائی کا نام ایاز ہے․․․․․ یہ تینوں نام SPACEکی نشاندہی کرتے ہیں۔
اور یہ SPACEایک سراپا ہیں۔ ہر سراپا میں سوچنے کے لئے دماغ ہے۔ دیکھنے کے لئے آنکھیں․․․․․ سننے کے لئے کان ہیں۔ محسوس کرنے کے لئے دل ہے․․․․․ چھونے کے لئے دورانِ خون کا عمل ہے․․․․․ سونگھنے کے لئے ناک ہے․․․․․ گرمی سردی محسوس کرنے کے لئے جسم میں مسامات ہیں․․․․․ غم زدہ اور خوش ہونے کے لئے ماحول میں انتشار یا اطمینان ہے․․․․․ ماحول ․․․․․ زمین کے تابع ہے۔ زمین SPACEہے․․․․․ SPACEچھوٹی یا بڑی ہوتی رہتی ہے․․․
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 308 تا 309
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔