مادہ اور روح ہم رشتہ ہیں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26252
سمندر سے موجیں اٹھتی ہیں اور ساحل سے ٹکرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔یہ کیوں ہوتا ہے؟اور موجوں کی بے قراری اورکروٹ کروٹ بے تابی کارازکیاہے؟
موج جب اپنی اصل،سمندر سے دور ہوتی ہے تواس کے اوپردوری کا احساس غالب آجاتاہے۔وہ باربار ساحل سے اس لئے سر ٹکراتی ہے کہ اسے فراق کی گھڑیا ں قیامت لگتی ہیں۔سمندرجوش وجلال اور عظمت سے جب وہ اپنی حیثیت کامظاہرہ کرتاہے تواونچی اونچی لہریں اس کے باطن سے باہر آجاتی ہیں اورساحل پر اپنی پیشانی رکھ دیتی ہیں۔ عظمت وجلال کامظاہرہ انہیں اس بات پر مجبور کردیتاہے کہ وہ سجدہ میں گرجائیں۔لہریں جیسے ہی ساحل پر جبین نیاز رکھتی ہیں،سمندردوبارہ اسے اپنی آغوش میں لے لیتاہے یہاں تک کہ لہر اورسمندر ایک ہوجاتے ہیں۔
پانی ذرہ ذرہ ہو کرجب اپنی نفی کردیتا ہے تو اسے ہوا خلاء میں اچھال دیتی ہے۔ خلا ء جب فنائیت کی لطافت سے معمور ہوجاتاہے اور اسے سکون کا ایک ابدی لمحہ میسر آجاتاہے تویہ ساری لطافت یہ ساراترشح،یہ ساری نمی بادل کے روپ میں خود کومنتقل کردیتی ہے۔بادل کے بڑے بڑے مشکیزے قافلہ درقافلہ کارواں در کارواں اڑتے ہوئے شمال سے جنوب اور جنوب سے شمال مشرق اور مغرب سے مشرق میں محو سفر ہوجاتے ہیں۔جہاں ان کا قیام ہوتا ہے وہا ں حرکت منجمد ہوجاتی ہے اورجمود اپنے وجود کوٹہراہوادیکھتاہے تو وہ سورج سے معاونت چاہتاہے۔سورج جب بلند وبالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکھری ہوئی چاندنی کو گہری آنکھوں سے دیکھتاہے توسورج سے نکلنے والی شعاعیں اس وجود کو ریزہ ریزہ کردیتی ہیں۔یہ ریزہ ریزہ جمود سیال بن کراعلٰی سے نشیب کی طرف چشموں آبشاروں ندی نالوں میں سیل بے کراں کی طرح رواں دواں ہوجاتا ہے اور اپنی اصل سمندر سے جاملتاہے․․․․․یہ سب کیوں ہوتاہے؟اس لئے کہ سمندر سے نکلا ہواپانی کا ایک ایک قطرہ اپنی اصل سمندر سے رشتہ قائم رکھنا چاہتاہے۔
کسی بھی درخت کا بیج پسند نہیں کرتاکہ وہ اس طرح فنا ہوجائے کہ موت اس کے مستقبل کو کھاجائے۔ہر بیج اپنے اندر تناور درخت کی حفاظت کرتاہے۔خود فنا کا لباس پہن کر درخت کے وجود کو قائم رکھتاہے۔یہ کیوں ہورہا ہے؟․․․․․․․․اس لئے کہ بیج اپنی اصل سے رشتہ قائم رکھنا چاہتاہے․․․․․․
حرکت ہر وقت حرکت ہے۔یہ حرکت پہاڑوں کو بڑے بڑے تودوں کو چھوٹے چھوٹے پتھروں میں،چھوٹے پتھروں کوکرش میں اور کرش کو بجری میں، بجری کو ریت میں کیوں تبدیل کر تی رہتی ہے؟۔اس لئے کہ پہاڑوں،کوہساروں اور ریت کے ذرات میں قدر مشترک ختم نہ ہو۔
آدم زاد نے تصوف کو نظر انداز کرکے جب روح سے اپنارشتہ توڑ لیا۔سیم وزر کی فراوانی اور عیش وعشرت کو سب کچھ جان لیا تو․․․․․․․․․روح کی بے قراری میں اضافہ ہو گیا اس لئے کہ روح جانتی ہے کہ صرف مادیت کاخول روح کی غذ اکو زہریلاکردیتا ہے۔جیسے جیسے روح سے آدم زاد کارشتہ کمزور ہوتاہے وہ خالق ِاکبر کی محبت سے دور ہوتا رہتاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 277 تا 279
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔