جنت کا لباس
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25640
روح کی ازلی صفت ہے کہ ہر عالم میں اپنا لباس اختیار کرلیتی ہے جس طرح روح آب وگل کی دنیا میں گوشت پوست کا لباس اختراع کرتی ہے اس ہی طرح مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی اپنا ایک لباس بناتی ہے اور اس لباس میں وہ تمام صفات اور صلاحیتں موجود ہوتی ہیں جو مرنے سے پہلے اس دنیامیں موجود تھیں۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ خوشی وغم کیا ہیں؟ یہ لوگ آپس میں جنتی اور دوزخی لوگوں میں امتیاز بھی کرتے ہیں۔
’’ اور پکارا جنت والوں نے آگ والوں کو، کہ ہم پاچکے جو ہم کو وعدہ دیا تھا ہمارے رب نے تحقیق سو تم نے بھی پایا؟ جو تمہارے رب نے وعدہ دیا تھا تحقیق بولے۔ ہاں، پھر پکاراایک پکارنے والے نے ان کے بیچ میں کہ لعنت ہے اﷲ کی بے انصافوں پر۔ جو روکتے ہیں اﷲ کی راہ سے، ڈھونڈتے ہیں اس میں کجی اور و ہ آخرت کے منکر ہیں۔‘‘ ان دونو ں گروہ کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں ( اطراف ) پر کچھ لوگ ہوں گے۔ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امید وار ہونگے اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے۔’’ اے رب! ہمیں ان ظالموں میں شامل نہ کیجئے۔‘‘ پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے۔’’ دیکھ لیا تم نے! آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے اور کیا اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہیں دے گا۔ آج ان سے کہا گیا ہے کہ داخل ہوجاؤ جنت میں ‘ تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ رنج‘‘ (سورۂ اعراف آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 243 تا 244
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔