کشف القبور
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25622
مرنے کے بعد آدمی ملکوتی دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے۔ انسانی انا دوسری دنیا میں بھی زندگی کے شب و روز پورے کرتی ہے۔مرنے کے بعدزندگی کو اعراف کی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کادارومدار دنیا کے اعمال پر ہے۔ اگر انتقال کے وقت کوئی شخص سکون سے لبریز اور ذہنی پراگندگی اور کثافت سے آزاد ہے تو اعراف کی کیفیات میں بھی سکون اور اطمینان قلب کا غلبہ ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اس دنیا سے بے سکونی،ضمیر کی خلش اور ذہنی گھٹن لے کر اعرا ف میں منتقل ہوتا ہے تو وہاں بھی گھٹن، پریشان، بے چین اور بے سکون رہے گا۔
کشف القبور کا مراقبہ اس شخص کی قبر پر کیا جاتا ہے جس سے اعراف میں ملاقات کرنا مقصود ہو۔ کشف القبور کے مراقبے کے ذریعے مرحوم یا مر حومہ سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
جب کشف القبور کا مراقبہ کسی صوفی یا ولی اﷲ کے مزار پر کیا جاتا ہے تو ا س سے مقصدان کی زیارت اور روحانی فیض کا حصول ہوتا ہے۔
کشف القبور کے مراقبہ کا طریقہ یہ ہے :
قبر کے پیروں کی طرف بیٹھ جائے۔
*ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچے اور جب سینہ بھر جائے تو روکے بغیر آہستگی سے باہر نکال دے۔یہ عمل گیارہ مرتبہ کرے۔
اس کے بعد 100دفعہ درود شریف اور 100دفعہ ’’یاباعث ‘‘ پڑھ کر آنکھیں بند کر کے تصور کرے کہ میں قبر کے اندر ہوں۔
کچھ دیر بعد ذہن کوقبر کے اندر گہرائی کی طرف لے جائے گویا قبر ایک گہرائی ہے اور توجہ
اس میں اترتی جا رہی ہے۔اس تصور کو مسلسل قائم رکھنے سے باطنی نگاہ متحرک ہوجاتی ہے اور مرحوم شخص کی روح سامنے آجاتی ہے۔ذہنی سکت اور قوت کی مناسبت سے مسلسل مشق اور کوشش کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ مراقبہ مرشد کریم کی نگرانی کے بغیر نہ کیا جائے کیونکہ شعور کے سامنے ایک دم روح آجانے سے ذہن پلٹ سکتا ہے۔اور آدمی پر دیوانگی طاری ہوسکتی ہے۔
کشف القبور کی صلاحیت کوزیادہ تر اولیاء اﷲ کے مزارات پر فیض کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 241 تا 242
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔