قبرمیں دروازہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24942
روحانی راستہ کے مسافر ایک صوفی نے کشف القبور کے مراقبہ میں جو دیکھا وہ اس طرح بیان کرتا ہے:
*ایک پرانی قبر کے سرہانے جب میں نے مراقبہ کیا تو میں نے دیکھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اسپرنگ کی طرح چھوٹے اور بڑے دائرے آنا شروع ہو گئے۔یہ دائرے نہایت خوش رنگ تھے۔ پھر ایک دم اندھیرا ہوگیا دور خلاء میں روشنی نظر آئی اور ایک بہت بڑی چہار دیواری میں قلعہ کی طرح دروازہ نظرآیا…… میری روح اس دروازے میں داخل ہوگئی…… دروازہ میں داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ یہاں پورا شہر آباد ہے۔ بلندو بالا عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ دھوبی گھاٹ بھی ہے اور ندی نالے بھی۔جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور باغات بھی۔ یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلّات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں میں رہنے والے آدم زاد بھی ہیں۔ یہاں اس زمانے کے لوگ بھی ہیں جب آدم بے لباس تھا وہ سترپوشی کے علم سے بے خبر تھا۔
ان میں سے ایک صاحب نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا۔
’’آپ نے اپنے جسم پر کپڑوں کا یہ بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے؟ صورت شکل سے تو آپ ہماری نوع کے فرد نظر آتے ہیں‘‘
یہ اس زمانے کے مرے ہوئے لوگوں کی دنیا (اعراف)ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں سترپوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔
یہ عظیم الشّان شہر جس کی آبادی اربوں کھربوں سے متجاوز ہے، لاکھوں کروڑوں سال سے آباد ہے۔ اس شہر میں گھوم کر لاکھوں سال کی تہذیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو آگ کے استعمال سے واقف نہیں اور ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو پتھر کے زمانے کے لوگ کہے جاتے
* جنت کی سیر
ہیں۔ اس عظیم الشّان شہر میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جس میں آج کی سائنس سے بہت زیادہ ترقی یافتہ قومیں رہتی ہیں۔ جنہوں نے اس ترقی یافتہ زمانے سے زیادہ طاقتور ہوائی جہاز اور میزائیل بنائے تھے۔ امتداد زمانہ نے جن کا نام اڑن کھٹولے وغیرہ رکھ دیا۔ اس شہر میں ایسی دانشور قوم بھی آباد ہے جس نے ایسے فارمولے ایجاد کر لئے تھے جن سے کششِ ثقل ختم ہو جاتی ہے اور ہزاروں ٹن چٹانوں کا وزن کشش ِ ثقل ختم کرکے چند کلو گرام ہوجاتا ہے۔ لاکھوں سال پرانے اس شہر میں ایسی قومیں بھی محو استراحت یا مبتلائے رنج و آلام ہیں جنہوں نے ٹائم اسپیس کو Less کر دیا تھا اور زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ آسمان پر فرشتے کیا کر رہے ہیں اور زمین پر کیا ہو نے والا ہے۔ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رُخ پھیر دیتے تھے اور طوفان کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ اسی ماورائی خطہ میں ایسے قدسی نفس لوگ بھی موجود ہیں جو جنت میں اﷲ کے مہمان ہیں اور ایسے شقی بھی جن کا مقدر دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔
یہاں کھیت کھلیان بھی ہیں اور بازار بھی۔ ایسے کھیت کھلیان جن میں کھیتی تو ہو سکتی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ایسے بازار ہیں جن میں دکانیں تو ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں۔
ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں اور دکان میں طرح طرح کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان کچھ نہیں ہے۔ یہ شخص اداس اور پریشان نظر آتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ ’’بھائی تمہارا کیا حال ہے‘‘۔
بولا: ’’ میں اس بات سے غمگین ہو ں کہ مجھے پانچ سو سال بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا ہے‘‘۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہو اکہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا۔ منافع خوری اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔
برابر کی دکان میں ایک اور آدمی بیٹھا ہو ا ہے بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے، چہرے پر وحشت اور گھبراہٹ ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کتاب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو بلند آواز سے اعداد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں۔’’دو اور دو سات،سات اور دو دس،دس اور دس انیس‘‘۔ اس طرح پوری میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تاکہ اطمینان ہو جائے اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔’’دو اور تین پانچ،پانچ اور پانچ سات، سات اور نو بارہ‘‘۔مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں تو میزان غلط ہو تی ہے اور جب دیکھتے ہیں کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں چیختے ہیں چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے ہیں اور سر کو دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دو بارہ میزان کرنے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ میں نے بڑے میاں سے پوچھا۔
’’جناب! آپ کیا کر رہے ہیں۔ کتنی مدت سے آپ اس پریشانی میں مبتلاہیں‘‘۔
بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور کہا:
’’میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتا سکتا، چاہتا ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہوگئے ہیں کم بخت یہ میزان صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیرپھیر کرتا تھا بدمعاملگی میرا شعار تھا۔
علماء سو سے تعلق رکھنے والے ان صاحب سے ملئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑ بیر کی جھاڑی۔ چلتے ہیں تو داڑھی کو اکھٹا کر کے کمر کے گرد لپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے میں داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ سوال کرنے پر انہوں نے بتا یا۔ ’’دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور داڑھی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب برآری کر لیا کرتا تھا‘‘۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 232 تا 234
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔