حضرت زکریا ملتانی کی فلاحی خدمات
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=22772
حضرت زکریا ملتانی ؒ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تربیت کا الگ الگ اہتمام فرماتے تھے۔یہ روحانی تحریک Scientificاور جدید خطوط پر استوار تھی قدرت نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کوفلاحی ذہن عطا کیا تھا۔ آپؒ نے جنگلوں کو آباد کروایا، کنویں کھدوائے، نہریں تعمیر کروائیں اور زراعت پر بھرپور توجہ دی۔ انہیں ہر وقت عوام کی خوشحالی کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اﷲتعالیٰ کی مخلوق کی خدمت ان کے لئے سرمایۂ آخرت تھی۔
آپ عوام الناس کے خادم تھے اور عوام آپ سے محبت کرتے تھے۔ یہی حسن اخلاق اور محبت تھی کہ لوگ جوق درجوق مراقبوں میں شریک ہوتے تھے۔ لوگوں نے اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے عرفان کیلئے ایمانداری اور خلوص نیت کو زندگی کا معیار بنالیا تھا۔ روح کی تقویت کیلئے درودشریف اور اذکار کی محفلیں سجتی تھیں لوگ خود غرضی اور خود پرستی کے ہولناک عذاب سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کرتے تھے۔
شیخ زکریا ملتانیؒ ڈولی میں جارہے تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی۔
اے اہلِ ملتان! میرا سوال پورا کرو ورنہ میں ملتان شہر الٹ دوں گا۔حضرت نے ڈولی رکواکرکچھ دیرتوقف کیا۔اور کہاروں سے کہا چلو……دوسری آواز پر کہاروں سے کہا ڈولی زمین پر رکھدو۔تھوڑی دیر بعد فرمایا……چلو کچھ نہیں۔۔تیسری آواز پر کہاروں سے فرمایا ڈولی کندھوں سے اتاردو……اور ڈولی سے باہر آکر……کہا……اس فقیر کا سوال جس قدرجلد ممکن ہو پوراکردو……
لوگوں نے پوچھا……یا حضرت آپ نے دو مرتبہ ڈولی رکوائی اور کچھ نہیں فرمایا……تیسری دفعہ فرمایا کہ جتنی جلد ممکن ہو فقیر کا سوال پورا کردو……اس کے پس منظر میں کیا حکمت ہے؟
فرمایا……پہلی دفعہ فقیر نے سوال کیا تو میں نے اس کی استعداد دیکھی ؒمجھے کچھ نظر نہیں آیا…… دوسری مرتبہ میں نے اس کے مرشد کریم کی استعداد پر نظر ڈالی۔۔وہاں بھی کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔تیسری دفعہ آواز کا میرے دل پر اثر ہوا۔
میں نے توجہ کی تو۔۔۔۔۔دیکھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس فقیر کے سلسلہ کے داداپیر سیدنا حضور علیہ الصواۃ والسلام کے دربار اقدس میں باادب کھڑے ہیں۔
حضرت شیخ بہاؤالدین زکریاملتانیؒ ایک روز اپنے حجرہ میں عبادت میں مشغول تھے کہ ایک نورانی چہرہ بزرگ آئے اور ایک سربر مہر خط حضرت صدر الدین کو دے کر چلے گئے انہوں نے خط والد بزرگوں کی خدمت میں پیش کردیا۔
والد بزرگوار نے فرمایا: بزرگ سے میرا سلام کہو۔ اور عرض کرو کہ آدھے گھنٹہ کے بعد آئیں۔حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ نے امانتیں واپس کیں بیٹوں سے کہا کہ درود شریف پڑھیں۔آواز سنائی دی ’’دوست بدست دوست رسید ‘‘یہ آواز سن کر حضرت شیخ صدرالدین دوڑے ہوئے حجرے میں گئے، دیکھا کہ والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ تدفین کے بعد صاحبزادہ کو خیال آیا کہ وہ کون بزرگ تھے جن سے ابّا نے کہا تھا آدھے گھنٹہ بعد آنا۔ صاحبزادے کو خط کی تلاش ہوئی۔ تکئے کے نیچے رکھے ہوئے خط میں تحریر تھا:
’’ اﷲ تعالی ٰ نے آپ کو حضوری میں طلب فرمایا ہے میرے لئے کیا حکم ہے۔
فرشتہ عزرائیل ‘ـ‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 192 تا 194
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔