جنات کا سول کورٹ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21977
چند دن کے بعد سوداگر اور اس ملازم کو عدالت میں پیش کیا گیا۔اور عدالت کے پیش کار نے شاہ صاحب ؒ کا لکھا ہوا پرچہ پڑھ کر سنایا۔اس میں یہ تحریر تھا:۔
’’میرا ہمسایہ سوداگر اور اس کا ایک ساتھی جنہیں آپ کی خدمت میں پیش ہونا ہے ان دونوں سے آپ مفصل روئیداد سن سکتے ہیں۔
جو اس مقدمہ کے سلسلے میں ضروری ہے۔اول تو یہ ہے کہ انسانوں میں یا جنات میں آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا اس کے باوجود سوداگر کی لڑکی کو اغوا کیا گیا ہے۔وہ لڑکی پہلے تو کبھی کبھی اپنے باپ کے گھر واپس آجاتی تھی اور اس نے کسی قسم کی اذیت کی کوئی شکایت نہیں کی۔لیکن اب وہ آناجا نا بھی ختم ہوگیا ہے۔لہٰذا میں اسکے باپ کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں تاکہ آپ کو تفصیلات کا علم ہوجائے۔جتنی تفصیلات میں جانتا ہوں میں نے آپ کو پیش کردی ہیں۔دوسری ایک بات اور زیر غور ہے اور میرے نزدیک اس کا سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جس دن سے لڑکی غائب ہوئی یا غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہواہے میرا ایک جن شاگرد بھی لاپتہ ہے۔وہ بھی مدرسے نہیں آیا کہ میں اس سے ہی کچھ معلوم کرسکتا۔بظاہر ان دونوں کڑیوں کا تعلق ایک دوسرے سے یقینی ہے میری درخواست ہے کہ اُس جن کا پتہ چلائیں جو مدرسے میں پڑھتا تھا اور پڑھتے پڑھتے یکایک غائب ہوگیا۔ممکن ہے میرا خیال صحیح ہو اور ہوسکتاہے کہ بالکل صحیح نہ ہو بلکہ تقریباََ صحیح ہو یہ غائب ہونے والے جن نے خود کیا ہے یا دوسرے جنات کو اس جرم میں شامل کرکے یہ واردات کی ہو۔‘‘
خط پڑھا جاچکا تو عدالت سوداگراور اس کے ساتھی سے مخاطب ہوئی اور ان سے سوال کیا:
’’ یہ بیان تو شاہ صاحب ؒ کا تھا جو آپ صاحبان کو پڑھ کر سنایا گیا اب آپ حضرات اپنا اپنا بیان قلمبند کرائیں‘‘
اس پر سوداگر نے کہا ’’ میری لڑکی پردہ دار ہے۔بے پردہ کسی کے سامنے نہیں آتی۔نہ ہی اسے شہر سے باہر جانے کا کبھی اتفاق ہوا۔بازاروں میں پھرنا بھی اس کی عادت نہیں ہے اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ جاتی ہے اوروہ بھی زیادہ سے زیادہ بازار تک۔ایک تو اس بناء پر کسی انسان پر اغوا کا شبہ نہیں کیا جاسکتا۔دوسری بات یہ ہے ہمارے گھر میں صرف وہ اعزاء آتے ہیں جن سے کوئی پردہ نہیں ہے اور ان کے سامنے لڑکی چھوٹی سے جوان ہوئی ہے وہ سب کے سب لڑکی سے محبت کرتے ہیں اور لڑکی کے غائب ہوجانے سے بہت پریشان ہیں کوئی دن ایسانہیں جاتا کہ لڑکی کی دو ایک سہیلیاں اور ہمارے چند ایک رشتہ دار اس کو پوچھنے نہ آتے ہوں۔اور انہیں اس کے متعلق تشویش نہ ہو۔جب ہم یہ معاملہ شاہ صاحبؒ کے سامنے لے گئے تو انہوں نے بہت دیر تک آنکھیں بند کرکے مراقبہ کیا لیکن اس قسم کا کوئی شبہ ظاہر نہیں کیا کہ لڑکی کو اغو ا کرنے والے انسان ہیں۔ہم لوگ شاہ صاحب ؒ کو اپنا رہنما اور بزرگ کامل سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں اس بات کا کلّی یقین ہے کہ یہ کام بجزاجنہ کسی اور نے نہیں کیا۔‘‘ یہ کہہ کر سوداگر خاموش ہوگیا۔اور پیشکار نے آئندہ پیشی کی تاریخ دیدی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 111
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔