خوش اخلاق جنات
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21965
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو آج تک وہاں نہیں دیکھا۔جو جنات مجھے وہاں لے جاتے ہیں وہ اور ہوتے ہیں اور جو وہاں سے مجھے لاتے ہیں وہ اور ہوتے ہیں۔میں ان میں سے چند جنات کوپہچانتی ہوں۔
لیکن وہ سب کے سب خوش اخلاق ہیں۔نہایت عزت کے ساتھ مجھے واپس پہنچادیتے ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی چیز کی فرمائش کی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو۔
شاہ صاحب ؒ نے جب انہی دنوں اس جن لڑکے کو اپنے مدرسے میں نہ دیکھا اور چراغ گل کرنے کا واقعہ ان کے ذہن میں آیا اور اس جن لڑکے کا یہ کہنا کہ یہ کام میں نے دانستہ کیاہے اوراس کا مدرسہ چھوڑ دینا یہ سب چیزیں شاہ صاحب ؒ کے ذہن میں ٹکراتی تھیں لیکن ان تمام حالات میں کوئی چیز ایک دوسرے سے وابستہ نظر نہیں آتی تھی اور آپؒ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے تھے۔
لڑکی کے غائب ہونے کی خبریں برا بر شاہ صاحب ؒ کے پاس آتی رہیں۔ شاہ صاحب ؒ اس کے سد باب کے لئے غور و فکر کرتے رہے۔سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں ایک ایسا جن آیا جو باغ کی دیوار کے نیچے کتا بن کے پڑا رہتا تھا مگر یہ کتا خارش زدہ تھا۔اس کتے کے بارے میں شاہ صاحب ؒ کو بالتحقیق بہت سی باتیں معلوم تھیں۔لیکن ان باتوں میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جس کی بناء پر وہ اس کتے سے شناسائی پیدا کریں۔ایک عرصے تک وہ سوچتے رہے آخر شاہ صاحب ؒ نے سوداگر کو بلوایا اور اس سے استفسار کیا کہ اس کے پاس کچھ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں۔
سوداگر نے جواب دیا ایک تو میرا بہت پرانا ملازم ہے اس کے علاوہ ایک میرا ہم عمر دوست ہے یہ دونوں میرے لئے معتبر ہیں اگران کو کوئی راز بتادیا جائے تو اس کو وہ اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھیں گے۔
شاہ صاحب ؒ نے فرمایا میں یہی چاہتا ہوں اب تم ان دونوں میں سے ایک کو میرے پاس لے آؤ۔
ساتھ ہی یہ فرمایا کہ دوروٹیاں خالص ماش کی دال پیس کر انہیں ایک طرف سے پکایا جائے اور کچی سمت میں گھی چپڑ دیا جائے۔
شاہ صاحب ؒنے ایک پرچہ لکھ دیا جس کی کئی تہیں کیں اور پرچے میں اتنی بڑی ڈوری باندھی جو کتے کی گردن میں آسکے۔
سوداگر جب روٹیاں اور اپنے وفادار ملازم کو لے کر حاضر خدمت ہوا تو شاہ صاحب ؒنے روٹیاں دیکھیں اور وہ پرچہ ان کو دے کر فرمایا۔
باغ کی دیوار کے پاس ایک خارش زدہ کتا پڑا ہواہے تم سیدھے اس کے پاس جاؤ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔وہ کتا تمہیں دیکھتے ہی بھونکے گا اور کاٹنے کے لئے دوڑے گا اسی لمحے ایک روٹی اس کے ایک آگے ڈال دینا اور کمال ہوشیاری سے جب وہ روٹی کھانے میں مصروف ہو یہ پرچہ اس کی گردن میں باندھ دینا اور جب وہ یہ روٹی کھاچکے تو دوسری روٹی بھی اس کے آگے ڈال دینا جب وہ کتا باغ کی دیوا ر سے چلے تو اسکے پیچھے ہولینا وہ جس طرف جائے چلتے رہنا جہاں کہیں وہ ٹہر جائے وہیں تم بھی ٹہر جانا اور پھر اتنا انتظار کرنا کہ وہ وہاں سے چل پڑے پھر اس کے ساتھ چلتے رہنا،وہ راستے میں بھی غرائے گا لیکن تم اس کا خیال نہ کرنا۔آخر چلتے چلتے وہ کتا کالے پہاڑ کے پیچھے میدان میں ایک مقام پر بیٹھ جائے گا وہاں تم دونوں بھی رک جانا اور اس بات کا انتظار کرنا کہ اس پرچے کا کیا جواب ملتا ہے ۔
کیونکہ اس کتے کے بیٹھتے ہی پرچہ اس کے گلے سے غائب ہوجائے گا اب یہ تمہاری ہمت ہے اور اس ہمت کی لازمی طور سے ضرورت بھی ہے کوئی زلزلہ آئے،کسی قسم کا طوفان آئے،ہواؤں کے جھکڑ اور آندھیاں چلیں تم اپنی جگہ جمے رہنا۔خوفزدہ ہونے کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے۔
شاہ صاحب ؒ کے ارشادکے مطابق سوداگر اور اس کے ملازم نے خارش زدہ کتے کو روٹیاں کھلائیں اور وہ پرچہ اس گلے میں باندھ دیا۔
وہ کتا وہاں سے چل پڑا اور الٹے سیدھے راستوں سے گزرتا رہا اور یہ دونوں بھی نہایت ہوشیاری اور ہمت کے ساتھ اس کا پیچھا کرتے رہے۔بالآخر کالے پہاڑ کے پیچھے والے میدان میں جاکر وہ کتا بیٹھ گیا اور چشم زدن میں شاہ صاحب ؒ کا لکھا ہوا وہ پرچہ اس کے گلے سے غائب ہوگیا۔
تھوڑی دیر تک تو سوداگر اور اس کا ملازم سکون سے بیٹھے رہے اور کتا بھی ساکت و جامد رہا۔لیکن ابھی انہیں بیٹھے ہوئے چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ آسمان و زمین زلزلے کی طرح لرزتے ہوئے محسوس ہوئے اور خوفناک آوازیں آنے لگیں۔دونوں پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھنے لگے لیکن انہیں کچھ نظر نہیں آیا ابھی وہ ان خوفناک آوازوں کی سمت متعین نہ کرپائے تھے کہ آندھی کے ساتھ ایک بگولہ اٹھا جو گرد و پیش کو لپیٹ میں لے کر تمام ماحول کو تاریک کرگیا۔
یہ دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔لیکن تاریکی ایسی گہری تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔اس کے باوجود انہوں نے کتے کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔
تھوڑی دیر بعد آندھی اور زلزلہ اور طوفان ختم ہوگیا اور چاروں طرف کی فضاء صاف ہوگئی۔کیا دیکھتے ہیں کہ نہ وہ پہاڑ ہے نہ وہ میدان ہے بلکہ اب انہیں ایک خوبصورت شہر دکھائی دیا۔جو بہت بڑی آبادی پر مشتمل تھا۔
بڑے بڑے مکانات تھے کشادہ سڑکیں تھیں اور عام طور سے جیسے بڑے شہروں میں محلے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح یہ شہر بھی محلوں میں تقسیم تھا۔
کچہریاں بھی تھیں جہاں مقدمے پیش کئے جارہے تھے اور عدالت ان کے فیصلے سنارہی تھی۔ان دونوں کو ایک آدمی تلاش کرتا ہوا آیا اور ان سے کہا :
’’ تمہارے مقدمے کی پیشی ہے۔چلو عدالت میں فیصلہ ہوگا۔‘‘
پہلے تو یہ ڈرے پھر انہیں شاہ صاحبؒ کا قول یاد آگیا۔انہوں نے سوچا اب جو کچھ بھی ہو مقدمے میں تو پیش ہونا ہی ہے۔پھر انہوں نے شاہ صاحبؒ کا لکھا ہوا پرچہ اس آدمی کے ہاتھ میں دیکھ لیا تو انہیں کچھ اطمینان ہوا۔یہ دونوں اس شخص کے ساتھ ہولئے۔
عدالت نے پرچہ پڑھ کر حکم جاری کیا کہ اس جن کو پیش کیا جائے جس کے خلاف یہ شکایتی پرچہ شاہ صاحب ؒ نے لکھا ہے۔
انسپکٹر نے پرچہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا ـ:
’’ حضور ہمیں اس شخص کو تلاش کرنا پڑے گا اس لئے ہمیں مہلت دی جائے‘‘
عدالت نے کہا:
’’شاہ صاحبؒ تو اس مقدمے کا فیصلہ فوراََ چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ جس جن سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہے اسے ان کے سامنے پیش کیا جائے۔‘‘
پیشکار نے جواب دیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 106 تا 109
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔