جن اور انسان میں عشق
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21941
کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس جن لڑکے نے اپنے ماں باپ سے کہا’’ میں ہرقیمت پر شاہ صاحب ؒ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ چل کر انہیں مدعو کریں‘‘
اس نے بڑے خوشامدانہ لہجے میں رو رو کر یہ بھی کہا ’’ مجھے سوداگر کی لڑکی سے والہانہ محبت ہے میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔لہٰذا آپ شاہ صاحب ؒ سے درخواست کریں کہ وہ سوداگر کے گھر والوں کو بھی ساتھ لائیں۔‘‘
لڑکے کی اس بات پر اس کے ماں باپ بہت برہم ہوئے اسے مار پیٹ کر تنبیہہ کی مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔اور اس نے کھانا پینا ترک کردیا۔یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انتہائی نحیف اور لاغر ہوگیا اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔اس کے باوجو د لڑکے کے ماں باپ کسی طور پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کہ وہ سوداگر کے گھرانے کو بھی دعوت دیں۔لڑکے کا دم آخر ہونے لگا تو ماں کے دل کا قرار ختم ہوگیا اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔باپ کے دل پر بھی چوٹ لگی اور اس نے اپنے لخت ِ جگر سے کہا۔
’’ بیٹا!ہم سوچیں گے کہ کیا ترکیب ہوسکتی ہے اور ہم کس طرح شاہ صاحب ؒ کی خدمت میں اس نوعیت کی درخواست کریں۔تو ضد چھوڑ دے کھاناپینا معمول کے مطابق شروع کردے تا کہ ہم کچھ سوچنے کے لائق ہوسکیں تجھے کیا خبر کہ ہم تیری وجہ سے کس قدر پریشان ہیں تو ہی تو ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔‘‘
لڑکے نے جب یہ مژدہ سنا تو اس پر سے نزع کا عالم ٹل گیا اور اس نے ایک عالم سرخوشی میں باپ کو جواب دیا۔
’’آپ کسی طرح کے تردد میں مبتلا نہ ہوں چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں اس قسم کی صورت حال پیدا کردوں گا کہ آپ کو بات کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔‘‘
اور پھر ایک دن اس لڑکے نے سوداگر کی لڑکی کے سامنے خود کو ظاہر کردیااور وہ بھی اسطرح کہ لڑ کی کے علاوہ اسے اور کوئی نہ دیکھ سکے۔لڑکی یکبار خوفزدہ ہوکر سہم گئی۔اس نے چیخ کر گھر والوں کو آواز دی اور بتایا کہ دیکھو یہ کون ہے؟
گھر والوں نے کہا: ’’ہمیں تو کچھ نظر نہیں آتا تجھے کیا نظر آتا ہے؟‘‘
لڑکی نے جواب دیا: ’’ ایک خوبصورت لڑکا میرے سامنے کھڑا ہے اور مجھے اپنے پاس بلارہا ہے۔‘‘
سوداگر نے کہا: ’’ یہ تیرا وہم ہے یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔کس جگہ ہے؟کہاں ہے آخر ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا؟‘‘
لڑکی نے بمشکل تمام اپنے ہوش وحواس کو بحال کرکے بتایا۔
’’دیکھو یہ سامنے کمرے میں کھڑا ہے۔
’’ماں نے بیٹی کی بلائیں لے کر ممتا بھرے دل سے کہا۔شاید تو جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔کیا تو نے اس سے پہلے کوئی اس قسم کا خواب دیکھا ہے؟‘‘
سوداگر کی بیٹی نے روہانسی ہوکر ماں سے التجا کی۔’’ تم میری بات کا یقین کرو ماں! یہ ہر گز خواب نہیں ہے۔یہ لڑکا میرے سامنے کھڑا ہے کیا تمہیں واقعتا یہ لڑکا نظر نہیں آتا۔‘‘
سوداگر پریشان لہجے میں بولا۔’’ اگر ہمیں نظر آتا تو ہم تجھے کیوں جھٹلاتے‘‘
لڑکی نے جھنجھلا کر کہا: ’’ جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ چاہتے ہیں میں وہم میں مبتلا ہوجاؤں اور یہ سمجھوں کہ میرا وہم یہ صورت بناکر میرے سامنے لے آیا جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔میں ہرگز آپ کی ان باتوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں میں جو کچھ کہہ رہی ہوں اور جو دیکھ رہی ہوں اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے دیکھو! وہ لڑکا اب بھی میرے سامنے ہے۔‘‘
سوداگر نے پہلے تو اس زمانے کے طبیب حاذق سے مشورہ کیا اور اپنی لڑکی کو حکیم حامد خان کے پاس لے گیا۔حکیم صاحب نے نبض دیکھی۔اس کی آنکھوں کی پتلیوں کا معائنہ کیا پھر یہ دیکھا کہ اس کے بالوں میں کوئی ارتعاش تو نہیں ہے۔ٹانگوں کو بغور دیکھا اور جو بھی وہ سمجھنا چاہتے تھے اسے جانچا لیکن کوئی نشان ایسا موجود نہیں تھا۔جس سے اس لڑکی کا کسی طرح غیر متوازن ہونا،پاگل ہونا،یا وہمی ہونا ظاہر ہوتا ہو۔
جب سب کچھ دیکھ چکے تو حکیم صاحب نے لڑکی سے سوالات شروع کئے۔انہوں نے پوچھا۔یہ کس دن کا واقعہ ہے؟
لڑکی نے بتایا۔فلاں دن اور فلا ں وقت یہ واقعہ پیش آیا۔
حکیم صاحب نے سوال کیا: ’’ اس دن تم کہاں تھیں؟‘‘
’’ میں اپنے گھر میں تھی‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
حکیم صاحب نے پوچھا: ’’ اس دن کے بعد بھی اس جیسی صورتحال پیدا ہوئی؟‘‘
’’ بارہا ایسا ہواہے جب میں اپنے کمرے میں ہوتی ہوں تو اچانک وہ صورت نمودار ہوجاتی ہے‘‘ لڑکی نے بتایا۔
حکیم صاحب نے مزید جرح کرتے ہوئے استفسار کیا:
ْ’’ تم نے کیا دیکھا ہے اور جو کچھ بھی دیکھتی ہو اس کی تفصیل پورے وثوق سے بیان کرو‘‘۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 97 تا 100
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔