نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=207
سوال: نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟
جواب: نام رکھنے والے انسان ہی ہوتے ہیں، وہ قریبی ہوں یا دور کے رشتہ دار، جب نام رکھا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر نانا، دادا، ماں باپ، نانی، دادی اور دوسرے گھر والے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ بعض ناموں میں سوچ بچار کو دخل زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے نام جن میں سوچ بچار زیادہ ہوتا ہے عام طور پر اعتدال کی زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوچ بچار میں بہت سارے خیالات کی لہریں مل جل کر ان ناموں کو متاثر کرتی ہیں اور خیالات کی یہ لہریں تقریباً پورے خاندان کی ذہنی واردات و کیفیات اور عملی زندگی کا عکس ہوتی ہیں۔ باالفاظ دیگر پورے خاندان سے ان ناموں کو کچھ نہ کچھ ورثہ ملتا ہے لیکن بعض نام اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ کسی نے سنا لڑکا پیدا ہو اہے اور اس نے ایک نام تجویز کر دیا۔ یہ نام بغیر کسی رد و بدل کے اس خاص شخص کی طبیعت قبول کر لیتی ہے جس نے نام رکھا اور یہ طبیعت اس شخص کے لئے جس کا نام رکھا گیا ہے ورثہ بن جاتی ہے۔ بعض نام رؤسا اور خواص کے بچوں کے ہوتے ہیں۔ ان ناموں میں کچھ کچھ سقم شامل ہوتا ہے۔ اس لئے وہ نام ایسے لوگوں کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کی کیفیات و واردات ایک دوسرے سے متضاد ہوتی ہیں جن کی بنا پر ان کا مزاج گھڑی گھڑی بدلتا ہے۔ وہ ایک مقام پر جم کر کبھی نہیں ٹھہرتے۔
ان کی طبیعت میں بہت غرور ہوتا ہے اور وہ غرور ان کی زندگی میں قدم قدم آڑے آتا ہے۔ یہ لوگ کانوں کے کچے اور خوشامدی ہوتے ہیں۔ اکثر ان کی جان خطرے میں رہتی ہے۔ بعض بچوں کے نام نہایت بے دلی سے رکھے جاتے ہیں۔ نام کے معنی اور مفہوم پر کوئی غور نہیں کیا جاتا۔ ان بچوں میں اکثریت بداخلاقی اور بدتمیز ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان کی تربیت ہی نہیں ہوتی یا ان کے والدین تربیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ زندگی کے کسی موڑ پر آ کر یہ بچے والدین اور معاشرے سے بغاوت کر دیتے ہیں نتیجہ میں بہت سے بچے جرائم پیشہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری قوم کی اکثریت تنگ دستی کی وجہ سے معاشرہ کے تمام بندھنوں سے خود کو آزاد تصور کرتی ہے۔ معاشرہ کی پابندی وہ قوم کر سکتی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم ہو۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اس کا اخلاق بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر اس میں صحیح کمانے کے ذرائع شروع ہی سے پرورش پا جاتے ہیں۔ بہت دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم میں یہ تمام باتیں مفقود ہیں۔ اگر ایسے نظام میں غور و فکر کے بعد ایسے نام رکھے جائیں جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں تو اچھے آدمی پیدا ہو سکتے ہیں اور اچھے آدمی بنائے جا سکتے ہیں اس لئے کہ پورے معاشرے کا اثر پوری قوم کے ہر فرد پر پڑتا ہے، اگر فرد باشعور ہو تو اجتماعی شعور کو جانتا ہے اور ساتھ ساتھ اجتماعی شعور رکھتا ہے اور اجتماعی شعور سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سید عالمﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے بچوں کے نام ایسے رکھو جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 25 تا 26
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔