تارِکُ الدّنیا
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19948
*دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کے عربی میں ترجمے ہوئے تو اشراقی حکماء نے سوف کا ترجمہ ’’حکیم ‘‘کردیا ۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ سوفی…………سے ’’صوفی‘‘ ہوگیا۔
یہ روایت بھی ہے کہ غوث بن مُرّ نے خود کو خانۂ کعبہ کے لئے وقف کردیا تھا۔اس کا مشہور نام ’’صَوفہ‘‘تھا۔
جن لوگوں نے خود کو غوث بن مُرّ سے منسوب کیاوہ صوفیاء کہلائے۔غوث بن مُرّ کو صوفہ اس لئے کہتے تھے کہ اس کی ماں کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی۔صوفہ کی ماں نے منت مانی تھی کہ اگر اسکی اولاد زندہ رہی تو وہ اس کے سر پر اون لگا کر کعبہ شریف کیلئے وقف کردے گی۔چنانچہ اس نے منّت پوری کی اور غوث بن مُرّ کا مشہور نام صوفہ زبان زدِعام ہوگیا ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ ’’صوفانہ‘‘سے مشتق ہے جو کہ ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے۔ چونکہ صوفی لو گ صحرا کی گھاس پات کھا کر گزارا کرتے تھے۔اس لئے وہ صوفہ کے نام سے مشہور ہوگئے ۔بعض لوگوں نے تو لفظ صوفی کی تشریح میں غضب ہی کردیا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ نام ’’سینٹ صُوفیہ‘‘ گرجا کے رہنے والے راہبوں کی وجہ سے ہے جو اپنے آپ کو تارک الدّنیا کہتے تھے۔اور یہ نام وہاں سے نکل کر مسلمان درویشوں میں رائج ہوگیا۔
غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔مگر افسوس ہے کہ کسی نے اس کا مفہوم یہ نہیں سمجھا کہ لفظ صوفی کا تعلق ظاہری اور باطنی صفائی سے بھی ہوسکتا ہے ۔ یا وہ لوگ جو کدورت ، بغض و عناد ، نفرت اور فساد سے پاک صاف ہوجاتے ہیں ان کو صوفی کہاجاتا ہے۔
الحمد اﷲ !یہ بات قابلِ شکر ہے کہ با وجود مخالفت کے مخالفین نے بھی تصوّف اور صوفی کا کوئی تاریک پہلوپیش نہیں کیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 32
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔