جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو کے افتتاح سے خطاب
مکمل کتاب : خطباتِ لاہور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=16082
مورخہ ۱۱ دسمبر ۱۹۸۷ء کو بروز جمعۃالبا رک ۱۱ بج کر ۱۱ منٹ پر سلسلۂِ عظیمیہؔ اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام لاہور میں آہلو روڈ کاہنہ نَو کے دُور افتادہ حصہ پر اللہ تعالیٰ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب کے زیرِ سرپرستی جامعہ عظیمیہؔ کا افتتاح کیا گیا۔
جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو لاہور کے افتتاح کے موقع پرپاکستان کے تقریباً تمام شہروں سے مندوبین کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی ۔جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو لاہورکےافتتاح سے مرشدِ کریم نے باقاعدہ خطاب کیا ۔ اور اس سرزمین کو مستقبل میں سلسلۂِ عظیمیہؔ کے مشن کی ترقی کیلئے انتہائی اہم قرار دیا۔ مرشدِ کریم کے خطاب کے بعد نگران جامعہ عظیمیہ، لاہور میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے تمام حاضرینِ مجلس کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کیلئے کھانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔
مرشدِ کریم نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا!
‘‘ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا بندہ جب کہیں بیٹھ جاتا ہے تو اس کے اِردگرد بہت سارے لوگ جمع ہوجاتے ہیں، وہ لوگوں سے بادگتا ہے لیکن ہجومِ عاشقاں اس کو ہمہ وقت گھیرے رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نہ ہی اپنا کوئی وقت ہوتا ہے نہ ہی اسے آرام کا موقع ملتا ہے۔
اس کے برعکس کچھ لوگ بچارے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کا ہجوم ان کے اردگرد جمع ہو، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ ان کے پاس نہیں جاتے یعنی ان کے اندر اتنی کشش نہیں ہوتی کہ عوام و خواص جوق در جوق اس کے گرد جمع ہو جائیں جبکہ اللہ والوں کی تو بات ہی نرالی ہوتی ہے ۔ میں نے تو عجیب نظارہ دیکھا ہےکہ اللہ والوں کے گرد جمع ہونے والے ہجومِ عاشقاں میں انسانوں کی بہ نسبت جنّات اور فرشتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ غور و فکر کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اللہ کے اس بندے میں آخر ایسا کون سا وصف اور خوبی ہے۔
اس کے اندر کیا ماورائیت ہے؟
کیا اس کے خوردونوش، سونا جاگنا اور دیگر معمولاتِ زندگی عام انسانوں سے مختلف ہیں۔ لیکن جب ہم اللہ والوں کے معمولاتِ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں بلکہ اللہ والوں کا کھانا پینا، سونا جاگنا غرض تمام معمولاتِ زندگی وہی کچھ ہیں جو دیگر انسانوں کے ہیں۔
آخر اللہ والوں میں ایسا کون سا وصف ہے یا کشش ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اُن سے محبت و عشق کرتی ہے، اُن کے پسِ پردہ اُن کی تعریف بھی کرتی ہے، لوگ اُن کی فراق میں آہ و بکا بھی کرتے ہیں۔
ایک عام آدمی جب اس دنیا سے پردہ کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ سال بھر میں ہی لوگ اس کا تذکرہ بھول جاتے ہیں لیکن اللہ والوں کے وصال کو جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اسی مناسبت سے لوگوں کے دل اُن کی طرف زیادہ مائل ہونے لگتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے وصال کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ آپ اگر کبھی ان کے مزار پر حاضری کیلئے گئے ہوں تو یقیناً آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں عام دنوں میں بھی کس قدر ہجوم ہوتا ہے۔ ہر وقت لنگر تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ قرآن خوانی، درود اور فاتحہ خوانی کا سلسلہ بھی ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ لوگوں کو بڑی تعداد کو وہاں جا کر سکون ملتا ہے۔ لوگوں کی دعائیں داتا صاحبؒ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔
آئیے تلاش کریں کہ ان اللہ والوں میں آخر کون سی خوبی ہے جو چھ ارب انسانوں میں نہیں پائی جاتی۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ …. اِن تمام بزرگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ مر گئے ہیں، میرے خیال میں دنیا میں اس سے بڑی کوئی جہالت نہیں ہو سکتی ہے۔ اللہ والوں کی تو شان ہی نرالی ہے۔ ایک عام آدمی کے متعلق ہی یہ کہنا کہ مرنے کے بعد وہ نیست و نابود ہو گیا، لاعلمی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
ا س بات کو ایک مثال سے سمجھئے کہ ایک آدمی افریقہ میں مقیم ہے اور اس کا یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے تو کیا اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرگیا ۔ جب وہ شخص افریقہ میں زندہ ہے تو یہاں کیلئے بھی زندہ ہونا ہے۔ اسی طرح ایک اللہ کا بندہ اس دنیا سے جانے کے بعد عالَمِ اَعراف میں زندہ ہے تو افریقہ میں کسی شخص کا زندہ ہونا اور عالَمِ اَعراف میں زندہ ہونے میں کیا فرق ہوگا؟ یہ فرق ضرور ہے کہ افریقہ اسی عالَمِ ناسوت میں مَوجود ہے جبکہ عالَمِ اَعراف اس مادّی دنیا سے اوپر کا ایک عالَم ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں شہداء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
‘‘یہ مرتے نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایسے زندہ ہیں کہ انہیں تو رزق دیا جاتا ہے۔ تم لوگوں کو ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے’’۔ (سورۃ البقرۃ – 154)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی مقام ہے کہ
‘‘جب تم قبرستان میں جاؤ تو کہو… اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ القُبُور’’
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ اہلِ قبور تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں لیکن تم سنتے نہیں ہو۔’’
اہلِ قبور یعنی اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوجانے والے لوگ تمہاری آواز سنتے ہیں، تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں، تمہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن تم نہ سنتے ہو نہ دیکھتے ہو اور نہ شعور رکھتے ہو۔ ایسا کیوں ہے؟
آپ اسلئے نہیں سنتے کیونکہ آپ نے اس آواز کو سننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ مثلاً آپ کے پاس بہترین قلم مَوجود ہے اور آپ اس قلم کو کبھی استعمال ہی نہ کریں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ قلم بے کار ہے یا قلم کا لکھنا ساقِط ہو گیا ہے۔ جب بھی کوئی شخص اس قلم سے کام لے گا قلم لکھنا شروع کردے گا۔
اب فرض کریں ایک شخص افریقہ چلاگیا اور برسوں گزر گئے وہ پاکستان واپس نہیں لوٹا۔ لیکن وہ افریقہ میں خوشحال زندگی بسر کر رہا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ سے اس کا میل جول قائم نہیں رہ سکا….
تو کیا آپ اسے زندہ کہیں گے یا مردہ؟
ظاہر ہے آپ اسے زندہ ہی کہیں گے۔
اسی طرح ایک شخص اس دنیا سے چلاگیا۔ جہاں گیا اس جگہ کا نام عالَمِ اَعراف ہے، عالَمِ اَعراف میں وہ زندگی کے سارے معاملات پورے کررہاہے تو اسے آپ اس دنیا میں مُردہ نہیں کہہ سکتے ۔
ایک آدمی ہماری دنیا میں ساٹھ سال کی زندگی گزارنے کے بعد دوسری دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے تو اسے ہم ہر گز مُردہ نہیں کہہ سکتے۔ منتقل ہونے والے انسانوں کو اگر ہم مُردہ جان رہے ہیں تو ہماری سوچ، طرزِ فکر اور زاویۂ نظر غلط ہے۔
“انتقال” عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی مطلب ہے منتقل ہونا اور”مرنا”ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں امر ہوجانا۔ یعنی مرنے والا شخص ایسی دنیا میں چلاگیا جہاں سے اب کبھی بھی واپس نہیں آئے گا۔ اب آپ جینے مرنے سے متعلق اپنے معاشرے میں رائج طرزِ فکر کا تجزیہ کریں۔ مرنے کے متعلق ہمارے ہاں جو تصورات ہیں کیا وہ درست ہیں؟
ایک مثال اور ہے کہ ایک آدمی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوجاتا ہے جہاں اس جیسے ہی انسان آباد ہیں، جہاں زندگی کی سہولتیں اس کے اپنے ملک سے کہیں زیادہ ہیں پابندیاں کم ہیں۔ جس طرح ہمارے بہت سے پاکستانی بھائی ملک چھوڑ کر دیگر ممالک منتقل ہوجاتے ہیں وہ محنت و مشقت بھی اپنے ملک سے کہیں زیادہ کرتے ہیں لیکن وہاں سے وطن واپس نہیں آتے اور کہتے ہیں کہ یہاں زیادہ سکون ہے۔
اس طرح مرنے کا مطلب نیست و نابود ہوجانا نہیں بلکہ ایک عالَم سے دوسرے عالَم میں منتقل ہوجانا ہے۔ جیسے یہاں سَرجانی ٹاؤن سے آپ لانڈھی منتقل ہوگئے، لانڈھی سے کلفٹن منتقل ہوگئے اور کلفٹن سے پھر آپ کسی دوسرے علاقے میں منتقل (Shift) ہوگئے۔ اس مثال کو آپ سٹی وائز (City-wise) بھی کر سکتے ہیں کہ کراچی سے لاہور پھر لاہور سے پشاور منتقل ہوجائیں۔ اب چاہے آپ اس سلسلے کو کتنا ہی پھیلا دیں اور چاہے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتنا ہی مختصر کیوں نہ کردیں….. زندگی محض ردّوبدل کا ہی نام ہے جب تک ردّوبدل نہ ہو زندگی آگے ہی نہیں بڑھے گی۔ یہ تغیّر ہی ہماری زندگی کو قائم رکھتا ہے۔ آپ اپنی پیدائش پر ہی غور کرلیں جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔
‘‘اور ہم نے بنایا آدمی کو بجنی مٹی سے، پھر ہم نے رکھا اس نطفہ کو قرارِ مکین (رحمِ مادر) میں پھر بنایا نُطفہ سے عَلَقہ، پھر بنایا اس عَلَقہ سے مُضغَہ، پھر بنایا مُضغَہ سے عِظاماً، اور پھر چڑھایا عظاماً پر لَحماً، پھر اٹھا کھڑا کِیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر تخلیق کرنے والا ہے۔’’ (سورۃ المؤمنون – 12، 13، 14)
جب اللہ تعالیٰ انسان کو پیدائش کے تمام تغیّرات سے گزار کر دنیا میں لے آتے ہیں تو یہاں بھی تغیّرات ہی اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ تغیّرات سے مراد یہ ہے کہ رات گزرگئی، دن گزر گیا، گھنٹے، منٹ، سیکنڈ لمحات سب گزرگئے۔ آپ کے سامنے ایک بچہ ایک سال کا ہُوا، دوسرا دس سال کا لڑکا ہُوا، تیسرا بیس سال کا نوجوان ہُوا اور چوتھا تیس سال کا جوان․․․․․ اور آپ سے پوچھا جائے کہ ان چاروں میں کیا فرق ہے تو آپ یہی کہیں گے کہ عمر کا فرق ہے․․․․․ سوال یہ ہے کہ عمر کیسے بڑھ گئی․․․․․؟ دراصل جو دس سال کے تغیّرات سے گزر گیا وہ دس سال کا ہو گیا اور جو بیس سال کے تغیّرات سے گزر گیا وہ بیس سال کا ہو گیا اسی طرح تیس سال کے تغیّرات سے گزر جانے والا فرد تیس سال کا کہلائے گا ۔ زندگی کے نشیب و فراز اور شب روز تغیّر کے سوا کچھ نہیں۔ اٹھارہ سال کے تغیّرات کی چکی نے کچھ اس طرح آپ کو پیسا کہ جو کچھ حاصل ہوا اس کا نام جوانی رکھ دیا گیا۔ پچاس سال کے تغیّرات کا حاصل بڑھاپا ہے۔ ساٹھ سال میں جسم پَے درپَےتغیّرات کی بناء پر اس قدر کمزور ہو گیا اور اس قابل نہیں رہا کہ وہ زمانے کے نشیب و فراز کو برداشت کر سکے۔ دنیا کی فضا میں مَوجود غم اور پریشانیوں کو بر داشت کرتے کرتے وہ اتنا عاجز آ گیا اور پکار اٹھا کہ اب مزید گنجائش نہیں ہے تو وہ اس تغیّر سے نکل کر ایک مختلف قسم کے تغیّر میں داخل ہوگیا۔
اولیاء اللہ اور عام انسانوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علوم کے وارثین میں سے کسی کو بھی جب شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ یہ زندگی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب انہیں یہ ملتا ہے کہ یہ زندگی کچھ بھی نہیں ۔ زندگی اس تغیّر کا نام ہے جس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ کے دوستوں کے یقین میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ یہاں تغیّر کے علاوہ کچھ نہیں اور اس تغیّر پر کسی کو کوئی دسترس حاصل نہیں ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ذہنی معذور بچوں کے جسم کی نشونما اسی طرح ہوتی ہے جس طرح صحت مند بچوں کی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ بھی جوان ہوجاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ اپنی عقل مندی سے جوان ہوا ہے۔ ایک پاگل شخص جسے کسی بات کا ہوش نہیں وہ پھر کیسے جوان ہوگیا۔ اسی طرح بوڑھے ہونے پر آپ کا کوئی اختیار نہیں۔ آپ کو اپنی پیدائش پر ہی کیا اختیار ہے، اللہ کے حکم کے مطابق جہاں اور جس وقت اس نے چاہا آپ کو پیدا کردیا۔ دنیا کا ایک فرد بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پیدا ہوا ہے۔ دنیا سے کوئی جانا بھی نہیں چاہتا لیکن اس کے باوجود بھی کوئی موت سے رستگاری حاصل نہیں کر سکا۔
اولیاء اللہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ یہاں جو کچھ ہے وہ سب کا سب تغیّر ہے تو وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہر چیز تغیّر پذیر ہے اور کسی چیز پر ہمارا اختیار بھی نہیں ہے تو ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہم یہاں دل لگائیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ہر شئے میں کام کرنے والی معین مقداروں کے قانون سے واقف ہوجاتے ہیں اور معین مقداروں کے قانون کے ذریعے ہی ہر شئے اپنی انفرادیت قائم رکھتی ہے ۔ مثال کے طور پر آپ اپنے ہاتھ ملائیے۔ آپ کے ہاتھ ایک دوسرے سے اس قدر جڑ گئے کہ بظاہر درمیان میں کوئی خلا باقی نہیں رہا لیکن آپ یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں جذب ہوگئے ہیں۔ ہاتھ آپ کو الگ الگ ہی محسوس ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معین مقدار ہر صورت برقرار رہتی ہیں۔ جہاں کشش ہے وہاں گریز بھی مَوجود ہے۔ اب وہ آدمی دنیا کی طرف جیسے جیسے بڑھتا ہے دنیا اپنا وُجود قائم رکھنے کیلئے پیچھے ہٹتی ہے اس کے بر عکس جب آپ دنیا سے گریز کریں گے…. دنیا ا ٓپ کی کشش میں اور آپ کے اور اپنے درمیان معین مقداروں کو قائم رکھنے کیلئے آگے بڑھے گی۔ ایک انسان دوسرے انسان میں اپنے ارادے اور اختیار سے جذب ہوجاتا ہے لیکن سینٹی میٹر کے ہزارویں حصے کے برابر خلاء نہ ہونے کے باوجود دونوں انسان الگ الگ رہتے ہیں، خود کو الگ الگ محسوس کرتے ہیں۔ قانون یہ بنا کہ:
‘‘ مقداروں میں تعیّن ہی انفرادیت قائم کرتا ہے…. کوئی انسان اس تخلیقی قانون کو توڑ نہیں سکتا۔ جس طرح ایک انسان ادراک رکھتا ہے اسی طرح مال و زر اور دولت بھی ادراک رکھتی ہے۔ جب کوئی انسان دولت کے تشخص سے فرار اختیار کرتا ہے تو مقداروں کے قانون کے مطابق توازن برقرار رکھنے کیلئے دولت اس کے پیچھے بھاگتی ہے اورجب کوئی انسان دولت کے پیچھے بھاگتا ہے تو دولت اس کے ساتھ بے وفائی کرتی ہے اور عذاب بن کر اس کے اوپر مسلّط ہوجاتی ہے’’۔
اللہ والوں نے دنیا سے لاتعلقی اختیار نہیں کی بلکہ دنیا کے تمام معمولات پورے کئے لیکن دنیا کو بھی تغیّرات کا شکار ہوتا دیکھ کر اس کو مجبورِ محض سمجھا اور اپنا رشتہ اس ہستی سے قائم کرلیا جو تمام تغیّرات سے ماوراء ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے سلاطین اور بڑے بڑے بادشاہ ننگے پَیر اور ننگے سر میلوں پیدل چل کر ان کے درباروں میں ہاتھ باندھے کھڑے رہے …. دراصل تغیّر پذیر دنیا سے انہوں نے اتنا ہی رشتہ قائم رکھا جتنا ضروری ہے۔ اسلئے لوگ اُن کے پاس بھی آتے ہیں، اُن کی باتیں بھی سنتے ہیں، اُن سے کشش بھی محسوس کرتے ہیں اور اپنے دکھ درد کا ان سے مَداوا بھی کراتے ہیں۔ اللہ کے یہ برگزیدہ بندے ہر دَور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور ان تمام روحانی بزرگوں کی تعلیمات یہی ہیں کہ انسان تغیّرات سے واقف ہو کر اس سے خود کو اتنا آزاد کر لے کہ یہ تغیّر بھی خود اُس کے پیچھے آجائے۔
میرے عزیز دوستو! حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ذاتِ گرامی ہم سب کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ بابا صاحبؒ کی تعلیمات جس قدر لطیف اور روشن ہیں اسی قدر پُر استدلال اور (Logic)سے بھرپور بھی ہیں۔ حضور بابا صاحب ؒ کی تعلیمات میں سائنس بھی ہے اور مثالیں بھی ہیں۔ اگر آپ نے حضور بابا صاحبؒ کی تعلیمات پر عمل کرلیا تو آپ کی زندگی بڑی پر سکون گزر جائے گی۔
اس دنیا کے بعد جو دنیا دَرپیش ہے، تغیّر وہاں بھی ہے لیکن وہاں کا تغیّر مادّی دنیا کے تغیّر سے بہت مختلف ہے۔ مثلاً یہاں انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر ۱۰۰ سال ہے تو وہاں ممکن ہے انسان کی عمر ایک لاکھ سال سے بھی کہیں زیادہ ہو۔ مرنے کے بعد کی دنیا میں بھی آدمی مستقل نہیں رہ سکے گا، اس دنیا کے بعد عالَمِ حشرونشر ہے پھر جنّت ہے پھر ابد اور پھر ابد الآباد کی دنیائیں در پیش ہوں گی۔ یعنی ہر دنیا میں ایک تغیّر ہے اور باقی قائم و دائم رہنے والی بس ایک ذات ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق جس قدر مظبوط ہوتا جائے گاسی قدر آپ اس تغیّراتی جھمیلے میں خوش اور آزاد رہیں گے۔ اگر خدانخوستہ تغیّر ہی میں آپ دفن ہوگئے تو خسر الدنیا و الآخرۃ کے مصداق اس دنیا میں بھی گھاٹا ہے اور آخرت میں بھی گھاٹا ہی ملے گا۔”
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:
‘‘جو لوگ اللہ کا قرب اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم ان کو پانے راستوں کی ہدایت بخشتے ہیں۔’’ (سورۃ العَنکبُوت – 69)
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ جب آپ دنیا کیلئے جدوجہد کرتے ہیں، دنیا کہتی ہے ! آؤ لبیک اور جب آپ اللہ کیلئے جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ کہتا ہے! یا عبدی لبیک!․․․․․․․․․․آ میرے بندے، آ، میں تجھے نوازوں گا، تجھے اپنی قربت عطا کروں گا․․․․․
اللہ تعالیٰ ہم سے دُور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بارہا یہ فرمایا ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ قربت اللہ تعالیٰ سے حاصل ہے….
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد…. (سورۃ ق – 16)
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ․․․․․جس قدر تم اپنی جان، اپنی زندگی، اپنی لائف یا اپنے حواس سے قریب ہو، اس سے کہیں زیادہ میں تم سے قریب ہوں۔
اگر کوئی کہے کہ صاحب…. اللہ تعالیٰ اس قدر قریب ہے تو نظر کیوں نہیں آتا….!!؟
تو اس کا جواب یہ ہوگاکہ آپ کو اپنا دل بھی تو نظر نہیں آتا، جس کے اوپر آپ کے پورے جسم کا دارومدار ہے۔ لیکن اگر آپ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو اپنا ظاہر بھی نظر آجاتا ہے، اسی طرح جدوجہد اور کوشش کرنے سے اور دیکھنے سے باطن بھی نظر آسکتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لئے نظر نہیں آتے کہ آپ نے اللہ کو دیکھنے کی ایسی جدوجہد نہیں کی جیسی کہ آپ دنیا کیلئے کرتے ہیں۔ اللہ تو ہمہ وقت ہمارے قریب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں….
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذّاریات – 21)
میں تمہارے اندر ہوں، تمہاری نفسوں میں ہوں لیکن بڑے تعجب کی بات ہے تم مجھے دیکھتے ہی نہیں ہو․․․․․یعنی اگر انسان سے قریب کوئی ہستی ہے․․․․․ تو وہ اللہ ہے․․․․․
اَللہُ نُور السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ… (سورۃ نُور – 35)
اللہ زمین آسمان کی روشنی ہے۔
اب سائنس نے یہ دریافت کرلیا ہے کہ انسان کے اوپر ایک Auraہوتا ہے… یعنی انسان روشنیوں کا بنا ہوا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ تاروں میں بجلی دوڑتی رہتی ہے لیکن جب تک آپ سوئچ آن نہیں کرتے اس وقت تک بلب روشن نہیں ہوتا… بلب روشن نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تاروں میں سے بجلی ختم ہوگئی ہے ۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر اللہ کا نُور دَوڑ رہا ہے․․․․․ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی روشنیاں دَوڑ رہی ہیں۔ لیکن اگر آپ ان روشنیوں سے اِستِفادہ ہی نہیں کرنا چاہتے…. یعنی سوئچ ہی آن نہیں کرنا چاہتے تو آپ کے گھر میں اندھیرا رہے گا۔
تمام روحانی سلاسل اور بالخصوص سلسلۂ عظیمیہ کی جدوجہد کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان سے اگر کوئی ہستی قریب ترین ہے تو وہ اللہ ہے اور جب کوئی بندہ اللہ سے دُور ہو جاتا ہے تو وہ شیطان سے قریب ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
ہم نے انسان کی تخلیق اس لئے کی ہے کہ وہ ہمیں پہچانے اور ہمیں پہچان کر ہمارا قرب حاصل کرے (الذّاریات – 56)
اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا:
• ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی نشانیوں میں ریسرچ کی جائے… اور
• ایک طریقہ یہ ہے کہ عبادات کے ذریعے، مراقبہ اور مجاہدہ کے ذریعے اپنے اندر تفکر کیا جائے اور اس تغیّر وتبدل پر غور کیا جائے جس تغیّر وتبدل کی بیلٹ پر ہماری زندگی گزر رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے کچھ بندے ہیں کہ وہ نوافل کے ذریعے میرے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتے ہیں، میں ان کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتے ہیں․․․․․ یعنی ایسے بندے اپنی مرضی کو اللہ کی رضا کے اس حد تک تابع کردیتے ہیں کہ ان کی اپنی مرضی ختم ہوجاتی ہے اور اللہ کی مرضی غالب آجاتی ہے۔”
کہاوت ہے کہ ․․․․․․․․․․”چراغ سے چراغ جلتا ہے”․․․․․․․․․․
دو سو (۲۰۰) سال پہلے چراغ کی روشنی ․․․․․ پہلے چھت کو روشن کرتی تھی․․․․․ پھر چراغ کی لو سے سمتیں روشن ہوتی تھیں․․․․․ پرانے زمانے میں چنگاری سے چراغ روشن ہوتا تھا․․․․․ اور اب سوئچ سے جلتا ہے․․․․․
طریقہ کار کچھ بھی ہو بہر حال روشنی سے روشنی ہوتی ہے․․․․․ اور بڑی خبر Big News یہ ہے کہ روشنی خرچ بھی ہوتی ہے․․․․․جس طرح دیئے میں تیل خرچ ہوتا تھا اب بلب میں بجلی خرچ ہوتی ہے۔ دکان سے ہمارے بزرگ بھی تیل خریدتے تھے اور ہم بجلی خریدتے ہیں․․․․․ اور اسلئے خریدتے ہیں کہ تیل بھی خرچ ہوتا ہے اور بجلی بھی خرچ ہوتی ہے۔
مدعا یہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے․․․․․
اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے، اپنی حکمت ومشیئت سے کائنات بنائی․․․․․ کائنات کو روشن و منور رکھنے کے لئے چاند سورج تخلیق کئے ․․․․․ رات کے اندھیروں میں مسافروں کو سفر میں سہولت فراہم کرنے کیلئے آسمان پر قندیلیں روشن کیں․․․․․ کاروبارِ حیات چلانے اور ایک دوسرے کی خدمت گزاری، غم خواری اور احسان و مروّت قائم رکھنے کیلئے ․․․․․دن بنایا ․․․․․ تاکہ لوگ متحرک رہیں․․․․․ ان کے اعصاب مفلوج نہ ہوجائیں․․․․․ یہ سب کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو شعور بخشنے کیلئے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا اور شعور کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے محبوب بندے رسول اللہ ﷺ کا انتخاب کیا۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک․․․․․ پیغمبر تسلسل کے ساتھ تشریف لاتے رہے۔ سب نے ایک بات کا اِعادہ کیا کہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے․․․․․ وہی معبود ہے․․․․․ وہی حاکم ہے ․․․․․ اور وہی تمام مخلوقات کو عدم سے وُجود میں لانے والا خالق ہے․․․․․ اس ایک اعلان کے ساتھ ساتھ ہر نبیؑ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے محبوب محمدﷺ آئیں گے․․․․․
آسمان سے نازل ہونے والے صحائف تورات، بائبل، وید اور دوسری الہامی کتابوں میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ انسانی شعور اور دین کی تکمیل محمد رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے․․․․․ اللہ کا وعدہ بر حق ہے اور پیغمبروں کا ارشاد سچ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ان کے اوپر دین کی تکمیل ہوگئی ․․․․․محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد تکمیل شدہ دین کی تبلیغ اور رشد و ہدایت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ صراطِ مستقیم پر قائم رہے․․․․․
دین کی تکمیل کا ایک روشن باب یہ ہے کہ دینِ حنیف پر قائم رہنے والے تمام حضرات و خواتین قرآنی احکامات پر عمل کرتے ہیں․․․․․
قرآن فرماتا ہے:
اور جو لوگ صاحبِ علم ہیں اور علمِ یقین انہیں حاصل ہو گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا سب اللہ کیلئے ہے۔ اور وہ اپنے یقین اور مشاہدے کی بناء پر یہ بھی کہتے ہیں کہ کائنات کی حرکت، کائنات کی ہر کروٹ، کائنات میں مَوجود ہر گیلیکسی(Galaxy)، سات آسمان، آسمانوں میں اَن دیکھی مخلوق، اربوں دنیائیں، کروڑوں سورج اور چاند۔ ان سب کا منزلوں میں سفر کرنا اور دوسرے سے تَرُّاض نہ کرنا یہ سب اللہ کی طرف سے ہے․․․․․ قرآن نے یہ فرمایا :
آسمانوں کو بروج سے زینت بخشی دیکھنے والوں کیلئے۔ اور اس زینت کو چھپا لیا شیطان مردود سے۔ (سورۃ المُلک – 5)
قرآن یہ بھی کہتا ہے:
اللہ انسان کی جان سے اقرب ہے۔ (سورۃ ق – 16)
اقرب سے مراد اتنی قربت کہ جس کو ملی میٹر Millimeterمیں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا․․․․․
قرآن کہتا ہے․․․․
اللہ تمہارے اندر ہے ۔ تم اللہ کو دیکھتے کیوں نہیں (سورۃ الذّاریات – 21)
یہ مقدس آیتیں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ علم دو ہیں․․․․
1. ایک علم وہ ہے جو ہمیں آنکھوں سے نظر آتا ہے
2. اور ایک باطنی علم ہے جو ہمیں روح کی آنکھ سے نظر آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے مخصوص شاگردوں کو ظاہری اور باطنی دونوں علوم منتقل فرمائے․․․․
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں ارشاد ہے:
‘‘تم پر ابو بکر کو نماز روزے کی کثرت کہ وجہ سے فضیلت نہیں بلکہ اس علم کہ وجہ سے ہے جو ان کے سینے میں ہے’’
حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا
‘‘میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔’’
ہَوا اور دریائے نیل پر حضرت عمرؓ کا تصرّف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ روحانی علوم سے آراستہ تھے․․․․․
حضرت علیؓ کے بارے میں ارشاد ہے:
‘‘میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔’’
اس ارشاد میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حضرت علیؓ علوم باطنیہ کا سر چشمہ ہیں․․․․
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں:
‘‘مجھے نبیﷺ سے دو قسم کے علوم ملے․․․․․ ایک علم تو میں نے ظاہر کردیا دوسرے کو میں نے چھپا لیا’’۔
اصحابِ صفہ نے رسول اللہ ﷺ کے عشق میں دنیا کی ہر شئے کی نفی کردی تھی․․․․ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی سر پرستی میں یہ جماعت عبادت اور مجاہدۂِ نفس میں مشغول رہتی تھی․․․․․ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ان کو درس دیتے تھے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور لوگوں کو اصحابِ صفّہ کا خیال رکھنے کی ہدایت فرماتے تھے․․․․
صحابہ کرامؓ اور صحابہ کرامؓ کی طرزِ فکر کو اپنانے والوں میں یہ خوبیاں مَوجود تھیں کہ ان کے قلوب اللہ کے محبوب ﷺ کے عشق میں سر شار رہتے تھے اور انوار و تجلیات کا ان کے اوپر نزول ہوتا رہتا تھا․․․․․ روحانی علوم کے ماہرین حضرت علیؓ، امام زین العابدینؒ، امام باقرؒ اور امام جعفر صادقؒ نے روحانی ادراک کے ذریعے وارد ہونے والے کشف و الہام، مشاہدات ِ غیبی اور وجد و کیفیات کی تشریح کر کے لوگوں کو صحابۂِ کرام ؓ کی فضیلت سے آگاہ کیا․․․․․
جب خلافت بادشاہت میں تبدیل ہوگئی․․․․․ عیش و عشرت اور جاہ طلبی حکمرانوں کا مقصدِ حیات بن گیا اور خلفاء نے علماءِ سوء کو زَر خرید جنس بنا دیا تو علماءِ باطن سر جوڑ کر بیٹھتے اور انہوں نے باطنی علوم کی درجہ بندی کی ․․․․․ مَوجودہ دَور کے مطابق ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے علومِ باطنی کیلئے سلیبس(Syllabus) بنایا․․․․․
کیوں کہ خلفاء نے بصرہ، کوفہ میں ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی اور زندگی کا مقصد جائز و ناجائز دنیا کمانے اور عیش و عشرت کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں رہا تھا․․․․․ محض دنیا طلبی…. ضروریاتِ زندگی کا حصول نہیں… عیش و عشرت، تشدّد و بربریت، غرور و برتری، نظامِ کائنات میں دخل اندازی، خود غرضی، عیاری، چالاکی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ(جو کسی بھی قسم کے زہر سے کم نہیں ہے)․․․․․ اسلام کے بالکل مُنافی اعمال ان کا مقصد بن گئے تھے۔ تب ․․․․․ علماءِ باطن نے لوگوں کو تبلیغ کی کہ رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر کے مطابق زندگی گزاریں․․․․․
حضور پاک ﷺ غریب نہیں تھے․․․․․ اس زمانے میں روایت کے مطابق پانچ اونٹنیاں حضور پاک ﷺ کے پاس تھیں جو اس دور کی پانچ مرسڈیز کاروں کے برابر ہیں․․․․․ اگر ایک مرسڈیز کی قیمت ۸۰ لاکھ روپے تسلیم کر لیں جو اس سے کہیں زیادہ ہے تو پانچ کی قیمت چار کروڑ روپے ہوئی․․․․․
حضور پاک ﷺ کے پاس کھجوروں کے باغات تھے․․․․․ رسول اللہ ﷺ کی دس ازواجِ مطہراتؓ تھیں اور سب کے الگ الگ گھر تھے․․․․․ دس ازواجِ مطہراتؓ کے دس گھروں کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ دس چولہوں کے اخراجات پورے فرماتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ صفّہ کی خورد و نوش، لباس، رہائش، دکھ درد، بیماری اور سفر کے اخراجات برداشت فرماتے تھے․․․․․ رسول اللہ ﷺ بہترین خوشبو ‘‘عُود’’ شوق سے استعمال فرماتے تھے․․․․․ جو مہنگی ترین خوشبو ہے ․․․․․
رسول اللہ ﷺ کی طرز ِ زندگی اپنانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا بھرپور طریقے سے استعمال کرو ․․․․․ خود فائدہ اٹھاؤ اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاؤ․․․․․ اور اس نعمت کے بارے میں یہ یقین رکھو کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے․․․․
جن حضرات نے علماءِ باطن کے سلیس کے مطابق باطنی علوم سیکھے، انہوں نے ان تمام چیزوں سے کنارہ کر لیا جو اس راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھیں․․․․․ اس طرح ان کا ذہنی، قلبی اور روحانی رابطہ اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قائم رہا․․․․
قرآن کہتا ہے:
جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کرتے ہیں۔ ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ (سورۃ العنکبوت – 69)
جب ان لوگوں پر عرفانِ نفس اور معرفتِ الٰہی کے دروازے کھل گئے تو انہیں روحانی اِدراک اور مشاہدات کی نعمتیں میسر آئیں۔
صحابۂِ کرام ؓ سے تابعین تک، تابعین سے تبع تابعین تک․․․․․ اور تبع تابعین کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر کے حامل علماءِ باطن حضرات نے عرفانِ نفس اور معرفت الٰہی کو مقصد زندگی بنانے کے لئے مجوزہ سلیبس میں قرآنی احکامات کی روشنی میں اضافے کئے․․․․․
اور تقریباًدو سو پچاس ہجری تک انبیاؑء کے وارث علماءِ باطن روحانی تصرف اور وجدانی کلام کے ذریعے لوگوں میں روحانی شعور بیدار کرتے رہے․․․․․بتایا جاتا ہے کہ حضور علیہ الصّلوٰۃ السّلام کے دَور میں کم و بیش پچیس فیصد لوگوں میں روحانی شعور بیدار تھا اور وہ مشاہدات کی دنیا سے واقف تھے۔
اس طرح تمام سلاسل کی بنیاد پڑی ۔ سلاسل تو تقریباًدو سو ہیں ۔ لیکن برِّصغیر پاک و ہند میں چار سلاسل کو خصوصی طور پر جانا جاتا ہے۔ اس میں سلسلہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ سلاسل کا نام زبان زدِ عام ہے۔ جبکہ دَر حقیقت سلاسل تو بہت سارے ہیں۔ لیکن ان تمام سلاسل کی تعلیمات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں صرف ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہے، انسان فانی ہے، اصل انسان وہ ہے جو اپنی روح سے واقفیت حاصل کرے اور روح چونکہ اللہ کو ازل میں دیکھ چکی ہے اس لئے روح سے واقف ہونے کے بعد بندہ اللہ کو جان لے، پہچان لے اور دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر لے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور نبی کریم ﷺ کی خصوصی رحمت و نسبت سے اب سلسلۂِ عظیمیہؔ کی بنیاد پڑی۔ سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیمات بھی وہی تعلیمات ہیں جو تمام سلاسل کی تعلیمات ہیں جو تمام انبیاء کرامؑ کی تعلیمات ہیں اور جو تعلیمات سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات ہیں۔ یہ وہی تعلیمات ہیں جو کہ قرآن حکیم میں مذکور ہیں۔ انہی تعلیمات کی اشاعت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کرتے ہوئے، حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی خصوصی رحمت و نسبت سے یہ جگہ کاہنہ میں جامعہ عظیمیہ کیلئے عطا کردی ہے۔ اِن شاء اللہ یہ جگہ نوعِ انسانی کیلئے ایسا مرکز ثابت ہوگی جہاں سے لوگ عرفانِ خداوندی کے علوم سیکھ کر جائیں گے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے بلاشبہ ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ میاں صاحب ہیں تو ایک سنگل پسلی کے انسان مگر کام بڑے بڑے کر جاتے ہیں۔ بلاشبہ اس کام کا کریڈٹ بھی میاں صاحب ہی کو جاتا ہے جنہوں نے ایک ایسا سینٹر بنانے کی کوشش کی ہے جہاں سے نوعِ انسانی کو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی پہچان ملے گی اور نوعِ انسانی اپنے مسائل سے نجات حاصل کرے گی۔
اس لئے میں میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب اور ان کی ٹیم کی اس پر خلوص کاوش کو قبول فرمائیں۔(آمین)
آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ سب لوگ سخت سردی میں اتنی دُور دَراز سے سفر کر کے اس دُور اُفتادہ جگہ پر صرف اللہ کے نام پر، اللہ کیلئے اور اللہ کی پہچان کی خاطر اکھٹا ہوئے۔
آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ ! اللہ آپ کو خوش رکھے۔(آمین) السّلام علیکم!
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 50 تا 62
خطباتِ لاہور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔