۹ ذی الحجہ ۔ حج کا دوسرا دن
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13597
فجر کی نماز منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکل کر دھوپ جبل ثبیر پر پھیل جائے تو عرفات جانا اولیٰ ہے کیونکہ رسول اللہﷺ بعد فجر تشریف لے گئے تھے۔ آج مغفرت کا دن ہے آج یوم عرفہ ہے۔ حج کا رکن اعظم، مسئلہ کی رو سے میدان عرفات میں ۹ ذی الحجہ کی دوپہر سے ۱۰ ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
عرفات کو روانگی
آپ کو مکہ معظمہ سے منیٰ لانے والی گاڑیاں یہاں سے عرفات لے جائے گی۔ عرفات کی طرف جاتے ہوئے ان لمحات میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگیں۔
اے اللہ! تیرے پیارے حبیبﷺ نے جس میدان عرفات میں جا کر امت کے لئے دعائیں مانگیں تھیں اسی میدان میں ہم تیرے پاس آ رہے ہیں۔ اے اللہ تو ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رہنے میں ہماری مدد فرما۔
قافلے فجر کی نماز کے بعد عرفات پہنچنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں آپ کو انسانوں کا ایک سمندر نظر آئے گا جس میں آپ بھی شامل ہیں۔ اس سمندر کی موجیں ایک دوسرے کے ساتھ لہراتی آگے بڑھتی چلی آ رہی ہیں۔ اب نہ قومیت کی پرواہ ، نہ زبان کا خیال، نہ رنگ کی پرواہ، نہ نسل کا خیال، سب ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے بڑھتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ عرفات کی جانب، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ سب اللہ کے مہمان ہیں۔ ان سب کو اللہ نے بلایا ہے ، یہ سب اللہ کی طلبی پر یہاں آئے ہیں اور پھر جس قدر ہو سکے تلبیہ، درود شریف اور کلمہ چہارم جو حضور پاکﷺ نے اس جگہ پڑھا اور پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ خوب پڑھیں اور عرفات کے راستے میں یہ بھی پڑھتے ہوئے جائیں۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا خَیْرَ غُدْوَۃٍ غَدَوْتُھَاقَطُّ وَقَرِّبْھَا مِنْ رِضْوَانِکَ وَاَ بْعِدْھَا مِنْ سَخَطِکَ وَ اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ تَوَجَّھْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَلِوَجْھِکَ الَکَرِیْمِ اَرَدْتُّ فَاجْعَلْ ذَنْبِیْ مَغْفُوْرًا وَّحَجِّیْ مَبْرُوْرًا وَّارْحَمْنِیْ وَلَاتُخَیِّبْنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَاقْضِ بِعَرَفَاتٍ حَاجَتِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
ترجمہ: اے اللہ میری تمام صبحوں سے اس صبح کو بہتر کر دے، اپنی رضامندی سے زیادہ قریب کر دے اور اپنے غصے سے زیادہ دور کر دے۔ اے اللہ! میں تیری طرف متوجہ ہوا اور تجھ پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں اور تیری ذات کو چاہتا ہوں۔ پس میرے گناہوں کو بخش دے اور حج کو قبول کر اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے محروم نہ کر اور میرے سفر میں برکت ڈال اور عرفات میں میری حاجت پوری کر۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
انسانوں کا یہ ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ظہر سے پہلے پہلے میدان عرفات پہنچ جائے گا۔ میدان عرفات پہنچ کر جبل رحمت پر نظر پڑتی ہے۔ یہی وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں سرکار دو عالم جنات رسالت مآبﷺ نے آخری حج کے موقع پر خطاب فرمایا تھا۔ حضور پاکﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع میں بیان کیا ہوا انسانیت کا منشور یاد آنے لگتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا۔
’’نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے، نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے ہاں اگر بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو۔ عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود وہ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اگر اس پر قائم رہے اور وہ ’’اللہ‘‘ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ ان ہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے تھے۔‘‘
اور پھر ذہنوں میں قرآن پاک کی وہ آیت گونجنے لگتی ہے جو اسی میدان میں نازل ہوئی تھی۔ جب سرکار دو عالمﷺ جبل رحمت سے خطبہ دینے کے لئے مسجد نمرہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کر لیا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔۳)
عرفات پہنچ کر اپنے خیمے میں قیام کیجئے۔ عرفات کا میدان ایک عظیم الشان لق و دق میدان ہے۔ چاروں طرف اس کی حدود پر نشانات لگوا دیئے ہیں تا کہ وقوف عرفات سے باہر نہ ہو۔ عرفات میں جس طرف سے داخل ہوتے ہیں وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی ایک مسجد ہے یہی مسجد نمرہ ہے۔ میدان عرفات میں جہاں بھی جگہ ملے آپ ٹھہر جائیں۔ زوال سے پہلے توبہ و استغفار میں مصروف رہیں۔ مسئلے کی رو سے آپ کو ظہر اور عصر کی نماز عرفات میں ادا کرنی ہے۔ زوال کا وقت شروع ہوتے ہی مسجد نمرہ کے امام صاحب ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر پڑھاتے ہیں۔ مسجد نمرہ میں جو امام صاحب نماز پڑھاتے ہیں وہ ریاض کے شہر سے آتے ہیں اور مسافر ہوتے ہیں۔ عرفات کا میدان دور تک پھیلا ہوا ہے اس لئے مسجد نمرہ سے دور ٹھہرنے والوں کو یہ مشورہ ہے کہ مسجد میں جانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ایک ہی شکل کے لاتعداد خیمے ہونے کے سبب زیادہ تر حضرات اپنے اپنے خیموں میں پہنچنے کے بجائے بھٹک جائیں گے تو پھر بہت تکلیف ہو گی۔ چنانچہ اپنے اپنے خیموں میں لوگ جمع ہو کر اپنے اپنے امام کے پیچھے صرف نماز ظہر قائم کریں اور عصر کے وقت عصر کی نماز قائم کریں۔ اس ضمن میں کسی سے حجت اور جھگڑا نہ کریں۔ اگر کوئی مسجد نمرہ کے علاوہ میدان عرفات میں دونوں نمازیں ملا کر قائم کر لیتا ہے اور اگر آپ مفتی، معلم یا عالم ہوں پھر بھی اس کو روکنے کی کوشش میں وقت ضائع نہ کریں، یہ دن ادھر ادھر کی باتوں میں یا کسی اور کام میں گزارنا نہیں چاہئے بلکہ عبادت اور دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 87 تا 90
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔